سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(234) بلاعذر رمی نہ کرنا

  • 19883
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 603

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت تندرست و توانا ہے لیکن وہ جمرات کی رمی کے لیے اپنے بیٹے کو کہتی ہے حالانکہ وہ خود رمی کر سکتی ہے، ایسے حالات میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمرات کو کنکریاں مارنا مناسک حج سے ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کنکریاں ماری ہیں اور اس کا حکم بھی دیا ہے پھر یہ ایک عبادت بھی ہے جسے انتہائی خشوع سے ادا کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’بیت اللہ، صفا مروہ کا طواف اور رمی جمار کو اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ [1]

 کنکریاں مارنے میں مرد اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، شدید ہجوم کے وقت انہیں آگے پیچھے تو کیا جا سکتا ہے لیکن بلاوجہ نیابت جائز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے کمزور افراد کو اجازت دی تھی کہ وہ رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ چلے جائیں تاکہ انہیں اس ہجوم کی وجہ سے تکلیف نہ ہو جو طلوع فجر کے بعد سب لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

 اس بناء پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ رمی جمار کے لیے کسی کو بلاوجہ وکیل نہیں بنانا چاہیے بلکہ خود یہ فریضہ ادا کیا جائے، البتہ اگر کوئی مرد یا عورت بیمار ہو یا کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے حمل کو ہجوم کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں کسی کو وکیل بنایا جا سکتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں وکالت صحیح نہیں ہے اگر ایسا کیا گیا ہے تو فدیہ کا جانور ذبح کر کے مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1]     مسند امام احمد،ص: ۶۴،ج۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:218

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ