السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے پاس نقد رقم نہیں ہے لیکن اس قدر مالیت کے طلائی زیورات ہیں کہ حج کر سکتا ہوں، کیا ایسے حالات میں مجھ پر حج کرنا فرض ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حج ارکانِ اسلام سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا بندوں پر ایک حق بھی ہے اور یہ صرف اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا١﴾ [1]
’’اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘
مذکورہ آیت میں استطاعت سے مراد بیت اللہ جانے اور وہاں سے واپس آنے کا خرچ اس کے پاس موجود ہو اور اس میں کھانے پینے کے اخراجات بھی شامل ہیں، اس سفر حج میں اپنے گھر سے غیر موجودگی کے دوران اہل خانہ کو حسب معمول خرچہ دیا جائے نیز راستہ پر امن ہو اور جسمانی طور پر بھی وہ صحت مند ہو کہ حج اور سفر حج کی صعوبتوں اور مشکلات کو برداشت کر سکتا ہو۔ اگر کسی کے پاس حج اور اپنے اہل خانہ کے اخراجات موجود ہیں اور راستہ بھی پر خطر نہیں لیکن جسمانی صحت اس کا ساتھ نہ دے رہی ہو تو وہ کسی دوسرے کو اپنی طرف سے حج کے لیے بھیج سکتا ہے بشرطیکہ جسے وہ اپنی طرف سے حج کے لیے بھیجے وہ پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو، اسے شرعی اصطلاح میں حج بدل کہا جاتا ہے۔ عورت کے لیے مزید ایک شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم موجود ہو، جو خواتین غیر محرم کو اپنا محرم ظاہر کر کے حج کے لیے جاتی ہیں ان کا یہ کردار محل نظر ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل کے پاس نقد رقم نہیں ہے لیکن اس قدر مالیت کے طلائی زیورات ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ حج کر سکتا ہے ظاہر ہے کہ انسان زیورات اپنے استعمال کے لیے نہیں بناتا بلکہ اپنی دولت کو سنبھالنے کے لیے زیورات بناتا ہے تاکہ اس کی رقم محفوظ رہے، اگر اس قدر زیورات اہل خانہ کے ہیں تو وہ اس کی ملکیت میں نہیں۔ ان کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ زیورات سائل کی ملکیت ہیں،
اہل خانہ خواتین کے نہیں ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں ان زیورات کو فروخت کرے اور فریضۂ حج کی ادائیگی میں سستی کا مرتکب نہ ہو اور بصورت دیگر کتاب و سنت میں اس کے متعلق سخت وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص حج کرنے کی ہمت اور استطاعت رکھتا ہے، اس کے پاس زاد سفر اور سواری موجود ہے جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے لیکن وہ حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ ایساشخص یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔‘‘ [2]
اس حدیث کی سند میں اگرچہ محدثین نے کلام کیا ہے تاہم درج ذیل آیت کریمہ سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے:
﴿وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ﴾[3]
’’جو شخص اس حکم (حج) کا انکار کرے تو اللہ تعالیٰ تمام اہل دنیا سے بے نیاز ہے۔‘‘
بہرحال اس قدر زیورات سائل کی ملکیت ہیں اور وہ کاروبار کے لیے نہیں ہیں تو وہ انہیں ٹھکانے لگا کر ان کی قیمت سے بیت اللہ کا حج کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۳/آل عمران:۹۷۔
[2] ترمذی، الحج: ۸۱۲۔
[3] ۳/آل عمران: ۹۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب