السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ا ستاذی المحترم ! ہمارے ہاں ادھر میلسی ان دنوں یہ مسئلہ بڑا بحث تمحیص کا باعث بنا ہوا ہے کہ کیا ایک چیز کی نقد اور ادھار قیمت میں کمی بیشی جائز ہے یا ناجائز آئے دن یہ بحث ہوتی ہے اور مسئلہ کسی نتیجہ خیز مرحلے پر نہیں پہنچتا ، اور اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے مختلف علماء سے رابطے کا پروگرام بنایا ہے تو اس سلسلے میں آپ قرآن وسنت کی روشنی میں اس کے بارے میں وضاحت کریں آیا یہ جائز ہے کہ ایک چیز کی نقد قیمت کچھ اور ادھار کچھ یا ناجائز اور اس بارے میں ۴ نومبر کے اہل حدیث میں عبدالرحمن چیمہ صاحب کا مضمون شائع ہوا اس کو بھی ممکن ہو تو مدنظر رکھیں۔ ۱۳ نومبر ۹۴ کو میری ملاقات مفتی عبدالرحمان صاحب سے ہوئی ان سے میں نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے بڑے ہی جزم کے ساتھ اس کے جواز کا فتویٰ دیا اور سب سے بڑی دلیل ان کی یہ تھی کہ نقد اور ادھار کی شکل میں ایک چیز میں دو قیمتیں بنتی ہی نہیں اس لیے کہ آپ تو خریدار سے طے کر رہے ہیں کہ نقد اس ریٹ پر اور ادھار اس ریٹ پر اب جب ادھار پر یا نقد پر بات طے ہو گئی تو بیع تو ایک ہی ہوئی۔
اور ایک چیز میں دو قیمتوں کی شکل اس طرح سے بنتی ہے کہ بائع مشتری سے کہتا ہے یہ چیز نقد اس قیمت پر اور ادھار اس قیمت پر اب مشتری بغیر قیمت تہہ(طے) کیے چیز اٹھا کر لے جاتا ہے تو یہ ایک چیز میں دو قیمتیں ہوئیں۔
اور اسی طرح انعامی بانڈز کا مسئلہ بھی در پیش ہے اس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی دس ہزار کے بانڈ خرید لیتا ہے اور قرعہ اندازی میں اس پر انعامات دئے جاتے ہیں اور یہ بانڈ جو آپ نے خرید کیے ہیں اس قیمت پر جب آپ چاہیں واپس بھی کر سکتے ہیں اور ان کی چینجنگ[تبدیلی] بھی کروا سکتے ہیں کہ وہ دس ہزار کے بانڈز آپ بینک میں دیں اور روپے حاصل کر لیں کسی صورت میں بھی مشتری کو نقصان نہیں ہو گا اور اس میں منافع وغیرہ کے تعین کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا جیسے بینک میں ہوتا ہے اس کی بھی وضاحت فرما دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) نقد قیمت کم اور ادھار قیمت زیادہ والی بیع ناجائز ہے اس کی تفصیل مولانا ابو البرکات احمد صاحب رحمہ اللہ اور حافظ عبدالسلام صاحب بھٹوی حفظہ اللہ کا اس موضوع پر مکالمہ پڑھ لیں نیز اس موضوع پر مولانا ابو جابر دامانوی صاحب حفظہ اللہ کا مضمون پڑھیں پھر شیخ البانی حفظہ اللہ کی ارواء الغلیل سے متعلقہ مقام کا مطالعہ فرمائیں ۔ (۲)انعامی بانڈ والا کاروبار بھی ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب