سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) دسویں ذوالحجہ کو طواف کرنے کے بعد حیض آنا

  • 19876
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 544

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک عورت کو دسویں ذوالحجہ کو طواف کرنے کے بعد اگر حیض آجائے تو وہ کیا کرے، کیا وہ طواف وداع کے لیے اپنے پاک ہونے کا انتظار کرے یا طواف کے بغیر ہی واپس اپنے وطن آجائے، قرآن وحدیث کے مطابق ایسی عورت کے لیے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طواف وداع کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے والا اپنے آخری لمحات بھی بیت اﷲ کے پاس بصورت طواف گزارے لیکن جس عورت کو حیض آجائے اس کے لیے طواف وداع ضروری نہیں ہے، وہ طواف وداع کے بغیر مکہ مکرمہ سے اپنے وطن واپس آجائے جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے وطن لوٹنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں اپنا آخری وقت بیت اﷲ کے پاس (بصورت طواف) گزاریں البتہ حائضہ عورت سے طواف وداع کے متعلق تخفیف کی جاتی تھی۔‘‘ [1]

 لیکن اس رخصت کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دسویں ذوالحجہ کو طواف افاضہ کر چکی ہو، جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو مکہ مکرمہ سے نکلنے سے پہلے طواف وداع کے متعلق رخصت دی تھی، بشرطیکہ وہ افاضہ کر چکی ہو۔[2]

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں، میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تو ہمیں روکے رکھے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے جب طواف افاضہ کر لیا تھا تب اسے حیض آیا تھا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تو وہ مکہ سے روانہ ہو اور ہمارے ساتھ چلے۔‘‘ [3]

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پہلے مؤقف یہ تھا کہ حائضہ عورت مکہ میں ٹھہرے اور جب پاک ہو جائے تو طواف وداع کر کے وطن واپس آئے، پھر انہوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور فرماتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو طواف وداع کے متعلق رخصت دی ہے۔ [4]

 بہرحال حائضہ عورت کو طواف وداع کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب اس نے طواف افاضہ کر لیا ہے تو طواف وداع کیے بغیر وہ اپنے گھر واپس آ سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الحج: ۱۷۵۵۔

[2] صحیح بخاری، الحج: ۱۷۵۵۔

[3]  مسند امام احمد، ص: ۳۷۰، ج۱۔  

[4] صحیح بخاری، الحج: ۱۷۶۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:213

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ