سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(226) حج بدل کرنا

  • 19875
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 814

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد گرامی کا چند روز قبل انتقال ہوا، زندگی میں ان پر حج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ جب ان کے پاس زادِ سفر (رقم) کا بندوبست ہوا تو وہ صحت کے حوالے سے سفر حج کے قابل نہ تھے، اب ان کی وفات کے بعد حج بدل کا حکم ان کے ورثاء پر لاگو ہو گا یا نہیں اور اگر ہو گا تو ان کی طرف سے کون حج ادا کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج ارکان اسلام میں سے پانچواں رکن ہے اور یہ اس شخص پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، استطاعت سے مراد یہ ہے۔

(ا) بیت اﷲ شریف جانے اور واپس آنے کا خرچہ اس کے پاس موجود ہو۔

(ب) اس کی عدم موجودگی میں گھر کے اخراجات کے لیے فاضل رقم موجود ہو۔

(ج) سفر حج پر امن ہو اور اس کے مال وجان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

(د) جسمانی صحت اس قابل ہو کہ اس سفر کی صعوبتوں کو برداشت کر سکتا ہو۔

 اگر کسی کے پاس حج اور اہل خانہ کے اخراجات موجود ہیں اور راستہ بھی پرامن ہے مگر جسمانی صحت ساتھ نہیں دیتی تو وہ کسی تندرست شخص کو اپنی طرف سے حج کروا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر ایک عورت آئی اور اس نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! اﷲ تعالیٰ کا فریضہ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے اس نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے مگر وہ سواری پر بیٹھنے کے قابل نہیں ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 ہاں تو اس کی طرف سے حج کر سکتی ہے۔ [1] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ معذور آدمی اگر چاہے تو کسی کو اپنا نائب مقرر کر کے حج کروا سکتا ہے، اسے حج بدل کہتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جسے حج بدل کے لیے بھیجا جائے وہ پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہا تھا کہ پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ [2] صورت مسؤلہ میں سائل کے والد کے پاس حج کے اخراجات تو موجود تھے لیکن وہ خود سفر حج کرنے کے قابل نہ تھے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا، اب اگر مرحوم کی اولاد اس کی طرف سے حج بدل کرانا چاہتی ہے تو شرعاً اس کی اجازت ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسے نیک شخص کا انتخاب کیا جائے جو پہلے اپنا حج کر چکا ہے اور اس سلسلہ میں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر مرحوم نے حج کے لیے کچھ رقم مختص کی تھی اور وہ وفات کے وقت موجود تھی تو اسے اب حج کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب وہ رقم اس کا ’’ترکہ‘‘ شمار ہو گی جسے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا اگر تمام ورثاء بطیب خاطر رضا مند ہوں تو اس رقم کو حج کی مد میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر اولاد میں کوئی یا سب مل کر باپ کی طرف سے حج بدل کرانے کابندوبست کریں، مختصر یہ کہ ان کے ورثاء پرحج کا حکم لاگو نہیں ہے ہاں اگر چاہیں تو اس کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اور جس نے حج بدل کرنا ہے پہلے وہ اپنا حج کر چکا ہو۔ (واﷲ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الحج: ۱۵۱۳۔ 

[2] ابو داود، المناسک: ۱۸۱۱

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:212

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ