السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے تقریباً پچاس ہزار روپیہ بینک میں جمع کروا رکھا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکلواتا اور جمع کرواتا رہتا ہوں، اس رقم پر مجھے کچھ منافع دیا جاتا ہے کیا اسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور زکوٰۃ کے متعلق کیا اصول ہے کیا صرف منافع پر ہو گی یا منافع اور اصل رقم دونوں پر؟ کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بینک جو رقم منافع کے طور پر دیتا ہے شرعی اعتبار سے وہ سود ہے، نام کے بدلنے سے حقیقت نہیں تبدیل ہوتی، اس لیے ایک مسلمان کو اس قسم کے ’’منافع‘‘ سے پرہیز کرنا چاہیے جو سود ہی کا نام ہے، اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر اسے حرام کہا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ ﴾ [1]
’’اﷲ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیاہے۔‘‘
اس سے اجتناب نہ کرنے والے کو اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ﴾ [2]
’’اگر تم سودی کاروبار کو ترک نہیں کرو گے تو اﷲ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، اس کی دستاویز تیار کرنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ [3]
سود کی شکل میں بینک کے ’’منافع‘‘ کو استعمال کرنا کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جا سکتا ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’دانستہ طور پر سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔‘‘ [4]
حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس قوم میں زنا اور سود پھیل جاتا ہے وہ خود پر اﷲ کا عذاب حلال قرار دے لیتے ہیں۔‘‘ [5]
ان احادیث کی روشنی میں ایک مسلمان کو تنبیہ ہے کہ وہ سود سے پرہیز کرے، اس سے دنیا اور آخرت تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ زکوٰۃ کے متعلق یہ اصول ہے کہ جو مال تجارت میں لگا ہوا ہو، سال گزر جانے کے بعد اس سے زکوٰۃ دی جائے بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور جو رقم بینک میں پڑی ہے، اس سے انسان خود زکوٰۃ ادا کرے، ’’منافع‘‘ یعنی سودی رقم اس کی نہیں اور نہ ہی اس سے زکوٰۃ دینے کی ضرورت ہے، صارف کو صرف اپنی رقم کی زکوٰۃ نکالنی چاہیے، زکوٰۃ کے سلسلہ میں بینک کے رحم وکرم پر اکتفا نہ کیا جائے کہ اس کی کاٹی ہوئی ’’زکوٰۃ‘‘ کوکافی خیال کر لیا جائے، کیونکہ بینک اس کھاتے میں زکوٰۃ کاٹتا ہے جس پر سود دیتا ہے، کرنٹ کھاتے سے زکوٰۃ نہیں لی جاتی، جتنی زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ اصل رقم کے ساتھ سود شامل کر دیا جاتا ہے، اس لیے صارفبینک میں پڑی ہوئی اپنی رقم کی خود زکوٰۃ ادا کرے۔ (واﷲ اعلم)
[1] ۲/البقرہ: ۲۷۵۔
[2] ۲/البقرہ: ۲۷۵۔
[3] صحیح مسلم، البیوع: ۱۵۹۸۔
[4] مسند امام احمد، ص: ۲۲۵، ج۵۔
[5] صحیح الترغیب، البیوع: ۱۸۶۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب