السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بیوی اپنے ضرورت مند خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟ پھر اس نے خود ہی اس زکوٰۃ کو استعمال کرنا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی کفالت کسی کے ذمہ ہو اس پر زکوٰۃ صرف نہیں کی جا سکتی مثلاً باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کرے، ان میں زکوٰۃ صرف نہیں ہو سکے گی، اسی طرح خاوند پر بیوی کا نان ونفقہ واجب ہے، لہٰذا وہ اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا البتہ بیوی اپنے ضرورت مند اور غریب خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے جب اپنے زیورات کی زکوٰہ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود کو اور اپنے بچوں کو زکوٰۃ کا زیادہ حقدار پایا، اس پر ان کی بیوی نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہا ہے، تیرا شوہر اور اس کی اولاد تیری زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ [1]
جب زکوٰۃ حقدار کو مل جاتی ہے تو اس کی حیثیت بدل جاتی ہے، زکوٰۃ لینے والا اسے جہاں چاہے صرف کر سکتا ہے، صورت مسؤلہ میں بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے اگرچہ بیوی نے اسی گھر سے کھانا ہوتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ کی حیثیت تبدیل ہو چکی ہے، یہ خود پر زکوٰۃ صرف کرنا نہیں، لیکن یہ بات یاد رہے کہ محتاج ہونے کی صورت میں ہی بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکے گی بصورت دیگر ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔ (واﷲ اعلم)
[1]بخاری، الزکوٰة: ۱۴۶۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب