سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(215) خاندان سادات کو زکوٰۃ دینا

  • 19864
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1631

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک سادات خاندان کا سربراہ کسی حادثہ کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے اس کے معاشی حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، کیا ایسے حالات میں مال زکوٰۃ سے ان کا تعاون کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں سادات کی بھرمار ہے لیکن اصل سادات بنوہاشم ہیں، یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جن کا سلسلہ نسب ملتا ہے، ان کے لیے ہر قسم کا صدقہ وخیرات حرام ہے۔ چنانچہ حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ آل محمد کے لیے جائز نہیں کیونکہ یہ تو لوگوں کے مال کی میل کچیل ہوتی ہے۔‘[1]

 صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ یہ زکوٰۃ وغیرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کے لیے جائز نہیں ہے۔[2]اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ’’کخ کخ‘‘ کہا تاکہ وہ اسے منہ سے نکال دیں پھر فرمایا: ’’کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ہیں۔ ‘‘ [3]

 صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک ہمارے لیے صدقہ جائز نہیں ہے۔‘‘ [4] ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم گری پڑی کھجور کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’اگر یہ شبہ نہ ہوتا کہ یہ کھجور صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے اٹھا کر کھا لیتا۔‘‘ [5]

 ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سادات خاندان کے لیے صدقہ وخیرات جائز نہیں ہے، اہل ثروت حضرات کو چاہیے کہ ایسے مفلوک الحال سادات کے ساتھ دست تعاون بڑھائیں اور صدقہ وخیرات کے علاوہ اپنی جیب سے ان کی ضروریات کو پورا کریں، بعض حضرات کا خیال ہے کہ سادات خاندان والے کسی دوسرے سید کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اﷲ سے دریافت کیا: ’’کیا ہم ایک دوسرے کو صدقہ دے سکتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ دے سکتے ہو۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں، اس لیے ناقابل حجت ہے۔ [6]


[1] حدیث نمبر: ۲۱۸۲۔

[2]  صحیح مسلم، الزکوٰۃ:۲۴۷۴۔     

[3]  صحیح بخاری، البیوع: ۲۰۵۵۔

[4]  صحیح مسلم، الزکوٰۃ:۲۴۷۴

[5]

[6] نیل الاوطار، ص: ۱۳۵، ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:200

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ