السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1) ہمارے ہاں ایک ڈاکٹر حکیم امیروں سے /۲۰ روپے وصول کرتا ہے اور غریبوں کو وہی دوائی نسخہ /۱۰ روپے کی دے دیتا ہے کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
(2) نقد شہد کی قیمت /۱۰۰ روپے ہے ہمارے ایک دوست ادھار /۱۵۰ کا بیچتے ہیں اس کا کیا حکم ہے اگر ان سے کہا جائے تو فرماتے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے ادھار پر زیادہ اونٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
(3) ہمارے ہاں آڑھتی حضرات آڑھت کمیشن بھی لیتے ہیں اور زمین پر بکھری ہوئی جنس بھی رکھ لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) کسی کا کوئی چیز امیروں کو پوری قیمت پہ دینا اور غریبوں کو آدھی قیمت پہ دینا درست ہے بلکہ وہ غریبوں کو مفت بھی دے سکتا ہے۔
(2) سوال میں مذکور صورت سود کی صورتوں سے ایک صورت ہے رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :
«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»(سنن ابى داؤد كتاب البيوع باب فى من باع بيعتين فى بيعة واحدة)
’’جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے پس اس کے لیے ان دونوں سے تھوڑا ہے یا سود ہے‘‘ رہا ’’نبی کریمﷺ کا ادھار پر زیادہ اونٹ دینے کا وعدہ‘‘ تو وہ ثابت نہیں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ والی ابوداود کی روایت :
«فَکَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيْرَ بِالْبَعِيْرَيْنِ إِلَی إِبِلِ الصَّدَقَةِ»
’’پس آپ دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے صدقہ کے اونٹوں تک‘‘ کے متعلق محدث وقت شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ تحقیق مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں «وَإِسْنَادُهُ ضَعِيْفٌ» کہ اس کی سند ضعیف کمزور ہے جبکہ ابن ماجہ میں ہے
«عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْحَيَوانِ وَاحِدًا بِاثْنَيْنِ يَدًا بِيَدٍ وَکَرِهَهُ نَسِيْئَةً»
’’ایک جانور کے بدلہ میں دو نقد کوئی حرج نہیں اور ادھار آپ نے مکروہ کیا‘‘
(3) اگر سود یا اکل مال بالباطل کی کسی شق وصورت میں شامل نہیں تو جائز ورنہ ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب