السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے عرصہ ۳۰ سال سے زکوٰۃ ادا نہیں کی، اب اسے ہوش آیا ہے اور اپنے کیے پر نادم ہے، کیا اسے سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی یا توبہ کرنے سے ہی گناہ معاف ہو جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے نزدیک مذکورہ سوال کی دو صورتیں ممکن ہیں اور دونوں کا جواب الگ الگ ہے:
1) اگر اسے زکوٰۃ کی فرضیت کا علم تھا اور وہ جانتا تھا کہ میرے پاس اتنا مال موجود ہے جس میں سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، لیکن وہ دانستہ طور پر اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا رہا تو اس صورت میں اسے سابقہ سالوں کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے جرم کی اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی طلب کرے۔
2) اگر اسے زکوٰۃ کی فرضیت کا علم نہ تھا اور نہ وہ جانتا تھا کہ میرے پاس اس قدر مال ہے کہ اس میں سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، اس صورت میں اسے سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ’’جرم‘‘ لاعلمی اور جہالت میں ہوا ہے، امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾[1]
’’اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جہالت کو بطور عذر پیش کیا گیا ہے، اس بنا پر امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایسے شخص سے مؤاخذہ نہیں کریں گے جس نے لاعلمی کی وجہ سے فریضۂ زکوٰۃ نظر انداز کیے رکھا۔ (واﷲ اعلم)
[1] ۱۷/بنی اسرائیل: ۱۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب