سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) مصرف زکوٰۃ

  • 19855
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 739

سوال

(206) مصرف زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک تنگدست آدمی، کسی مالدار دوست سے دوسروں میں تقسیم کرنے کے لیے زکوٰۃ وصول کرتا ہے تو کیا اسے زکوٰۃ خود استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے؟ براہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: وکیل کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مال زکوٰۃ کو اپنے لیے استعمال کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوست کو بتائے کہ وہ خود اس کا محتاج ہے اگر وہ اجازت دے تو اپنے استعمال میں لائے اگر وہ اجازت نہ دے تو اسے آگے تقسیم کردے، اس کی اجازت کے بغیر مال زکوٰۃ کو خود استعمال کر لیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس کی ادائیگی کرے اور اسے دوسرے غرباء میں تقسیم کرے، بعض لوگ ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ لوگ انہیں محتاج سمجھ کر زکوٰۃ دیتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس مال زکوٰۃ اس قدر جمع ہو چکا ہے کہ وہ تنگ دستی کے دائرہ سے نکل چکے ہوتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے غنی کر دیا ہوتا ہے لیکن لوگ انہیں حقیر سمجھ کر زکوٰۃ بدستور دیتے رہتے ہیں اور وہ بھی حسب معمول وصول کرتے رہتے ہیں اور وہ اسے اپنے استعمال میں لاتے رہتے ہیں اوریہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں سے نہیں مانگا، یہ تو اﷲ تعالیٰ کا رزق ہے جو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پہنچایا ہے، ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے غنی کر دیا ہو اس کے لیے زکوٰۃ وصول کرنا حرام ہے، بہرحال صورت مسؤلہ میں آدمی کو وضاحت کر دینا چاہیے کہ میں خود زکوٰۃ کا حقدار ہوں، اگر وہ اجازت دے تو مال زکوٰۃ اپنے لیے رکھ لے بصورت دیگر اسے فقراء میں تقسیم کر دے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:194

محدث فتویٰ

تبصرے