سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(204) زیر استعمال زیورات کی زکوٰۃ

  • 19853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 665

سوال

(204) زیر استعمال زیورات کی زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زیراستعمال زیورات کی زکوٰۃ کے متعلق وضاحت کریں، ہمارے ہاں مشہور ہے کہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیر استعمال زیورات میں زکوٰۃ کے متعلق درج ذیل چار مؤقف ہیں۔

1)  زیورات میں زکوٰۃ فرض ہے خواہ وہ زیر استعمال ہوں۔

2) ان میں زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔

3)  زیورات کی زکوٰۃ انہیں دوسروں کو عاریۃ دینا ہے اس کے علاوہ الگ زکوٰۃ ضروری نہیں ہے۔

4)  زیراستعمال زیورات میں صرف ایک مرتبہ زکوٰۃ دینا فرض ہے۔

 ہمارے رجحان کے مطابق زیراستعمال زیورات کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے، بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائیں، اس کے متعلق حسب ذیل دلائل ہیں۔

٭ آیات وحدیث میں مطلق طور پر سونے اور چاندی سے زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس عموم میں زیورات بھی شامل ہیں خواہ وہ زیر استعمال ہی کیوں نہ ہوں، مثلاً:

﴿وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ ……﴾[1]

’’وہ لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں……۔‘‘

’’جوبھی سونے اور چاندی کا مالک اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا…۔‘‘ [2]

٭ ایک عورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ہمراہ اس کی بیٹی تھی، جس کے ہاتھ میں سونے کے دوکنگن تھے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تو اس کی زکوٰۃ دیتی ہے۔‘‘ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ’’کیا تجھے یہ پسند ہے کہ قیامت کے دن تجھے آگ کے دو کنگن پہنائے جائیں، یہ سن کر اس خاتون نے وہ کنگن پھینک دیے۔ [3]

٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سونے کا زیور پہن رکھا تھا، انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ کنز ہے جس کی مخالفت قرآنی آیات کرتی ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو تو یہ کنز نہیں ہے۔ ‘‘[4]

٭ ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ سونا اور چاندی دونوں قسم کے زیورات میں زکوٰۃ ہے، اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زیور میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ [5]

 لیکن اس کی سند انتہائی کمزور ہے، اس بنا پر بہت سے علماء نے اسے ناقابل حجت ٹھہرایا ہے۔


[1] ۹/التوبۃ: ۳۴۔  

[2]    مسلم، الزکوٰۃ: ۹۷۸۔

[3] ابو داود، الزکوٰۃ: ۱۵۶۳۔

[4]    مستدرک حاکم، ص: ۳۹۰، ج۱۔

[5]  دارقطنی، ص: ۱۰۶، ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:193

محدث فتویٰ

تبصرے