سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ

  • 19839
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1064

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کے متعلق وضاحت فرمائیں کہ کس نے پڑھا تھا؟ ہمارے ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان خطا کار اور گنہگار ہے، اس عالم رنگ و بو میں آنے کے بعد کئی قسم کے گناہوں سے اپنے دامن کو آلودہ کرتا ہے، کچھ سعادت مند توبہ کر کے اپنے دامن کو صاف کر لیتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو اس کی سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں ان کی نماز جنازہ غنیمت ہوتی ہے کہ اگر چالیس موحد آدمی اس کا جنازہ پڑھ لیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے گناہوں سے معافی کی سفارش کر دیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ بشرطیکہ اس نے شرک کا ارتکاب نہ کیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے پاک تھے۔ مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب و روز اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کی ضرورت نہ محسوس کی گئی اور نہ ہی معمول کا جنازہ پڑھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل اور کفن دینے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں رکھ دیا گیا، وہاں محدود تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جاتے اور درود پڑھ کر واپس آجاتے، یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’منگل کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے فراغت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو آپ کے حجرہ مبارک میں آپ کی چار پائی پر رکھ دیا گیا پھر لوگ گروہ در گروہ اندر جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے تھے، جب مرد حضرات فارغ ہوگئے تو خواتین کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی، جب ان سے فراغت ہوئی تو بچوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کے لیے کسی نے لوگوں کی امامت نہیں کی۔‘‘[1]

 حدیث کے آخری الفاظ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کے لیے کسی نے لوگوں کی امامت نہیں کی، ان سے یہ مفہوم بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اندر جانے والے خواتین و حضرات انفرادی طور پر نماز جنازہ پڑھ کر واپس آجاتے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس کا معنی نماز جنازہ کے بجائے درود پڑھنا زیادہ موزوں اور قرین قیاس ہے، جنازہ پڑھنے سے یہ بات اخذ کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اقتدار کے چکر میں پڑ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ تک نہ پڑھی گئی، یہ بات سرے سے غلط ہے، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین اور تدفین بھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے ہی عمل میں آئی تھی۔


[1] مسند امام احمد، ص: ۲۹۲،ج۱

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:182

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ