السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا باپ شرک کی حالت میں فوت ہوا ہے، کیا اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کے حوالے سے فتویٰ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشرک اگر زندہ ہو تو اس کی رشد و ہدایت کے لیے دعا کرنا سنت سے ثابت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ دوس کے لیے ہدایت کی دعا کی تھی جب کہ وہ اس وقت مشرک تھا۔[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’مشرکین کے لیے دعا کرنا۔‘‘ [2] لیکن مرنے کے بعد مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا۠ لِلْمُشْرِكِيْنَ۠ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾[3]
’’نبی اور اہل ایمان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں جب کہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی ماں کے لیے بخشش کی دعا کرنے کی اجازت طلب کی تو اس نے مجھے اجازت نہ دی پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دے دی۔‘‘ [4]
اس قرآنی آیت کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ مشرک والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ ان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے ان کی رشد و ہدایت کے لیے دعا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری، الدعوات: ۶۳۹۷۔
[2] صحیح بخاری، الدعوات، باب نمبر۵۹۔
[3] ۹/التوبۃ:۱۱۳۔
[4] صحیح مسلم، الجنائز: ۲۲۵۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب