السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کفن کس قسم کا ہونا چاہیے، کیا میت کے ترکہ سے کفن دیا جا سکتا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کفن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اچھا ہو، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے عمدہ کفن دینا چاہیے۔‘‘ [1]
عمدہ اور اچھا کفن دینے سے مراد یہ ہے کہ کفن کا کپڑا صاف ستھرا، عمدہ اور اس قدر ہو کہ میت کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ سکے، اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ قیمتی ہو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت قیمتی کفن نہ دیا کرو کیونکہ یہ تو بہت جلد بوسیدہ ہو جاتا ہے۔‘‘ [2] یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کے باوجود زیادہ قیمتی کفن پہنانا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں مال کا ضیاع ہے جس کی صحیح احادیث میں ممانعت ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک کپڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے دھو لینا اور اس کی ساتھ دو اور چادریں ملا کر مجھے کفن دینا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یہ تو پرانا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ زندہ آدمی نئے کپڑے کا مردہ سے زیادہ حقدار ہے۔[3]کفن کا انتظام میت کے ترکہ سے کرنا چاہیے خواہ وہ اسی قدر ہو جس سے صرف کفن کا بندوبست ہو سکتا ہو، چنانچہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن شہید کر دئیے گئے، انہوں نے اپنے ترکہ میں صرف ایک چادر چھوڑی، اگر ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اگر پاؤں ڈھانپتے ان کا سر ننگا ہو جاتا، آخر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کا سر ڈھانپنے کا حکم دیا اور ان کے قدموں پر کچھ گھاس ڈال دینے کا فرمایا۔ [4]
بہرحال میت کو اس کے ترکہ سے ہی کفن دینا چاہیے ہاں اگر کوئی از خود کفن تیار کر کے میت کو پہنا دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نیز بہتر ہے کہ تین سفید چادروں میں کفن دیا جائے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہولیہ کے بنے ہوئے سفید رنگ کے تین سوتی کپڑوں میں کفن دیا گیا جن میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی۔ [5]
[1] مسلم، الجنائز: ۹۴۳۔
[2] ابوداود، الجنائز: ۳۱۵۴۔
[3] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۸۷۔
[4] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۲۷۶۔
[5] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۲۶۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب