سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) عزیز واقارب کے انتظار میں جنازہ موخر کرنا

  • 19830
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 637

سوال

(181) عزیز واقارب کے انتظار میں جنازہ موخر کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں رواج ہے کہ عزیز و اقارب کے انتظار میں جنازہ مؤخر کیا جاتا ہے، کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے، شریعت مطہرہ میں اس انتظار کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی کے عزیز و اقارب کو اس کی وفات کے متعلق آگاہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی وفات کے متعلق اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مطلع کیا تھا لیکن ان کے انتظار میں میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جنازہ میں جلدی کرو کیونکہ میت اگر نیک ہے تو اسے تم خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔‘‘ [1]

 رشتہ داروں کے انتظار میں میت کی تدفین میں دیر کرنا مستحسن امر نہیں ہے، البتہ چند گھنٹے تو انتظار کیا جا سکتا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ اس کی تدفین جلدی عمل میں لائی جائے، کچھ رشتہ دار اگر تاخیر سے پہنچیں تو وہ اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھ سکتے ہیں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ جب مسجد میں جھاڑو دینے والے مرد یا عورت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: ’’تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی، مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کی۔‘‘ [2]

 بہرحال کسی کے فوت ہونے کے بعد عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو اطلاع دی جا سکتی ہے تاکہ اس کی نماز جنازہ میں زیادہ سے زیادہ موحد حضرات شریک ہو سکیں، لیکن ان کے انتظار میں تجہیز و تکفین، نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ میں تاخیر درست نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الجنائز قبل حدیث: ۱۳۴۰۔

[2] صحیح بخاری،الجنائز: ۳۱۱۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:176

محدث فتویٰ

تبصرے