السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ نے اہل حدیث کے ایک شمارہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، اس کی کیا دلیل ہے؟ وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جنازہ کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں، چنانچہ بعض احادیث میں ان پر نماز جنازہ پڑھنے کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ نے ان کی نماز پڑھی تھی۔ [1]
لیکن اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن عثمان راوی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ محدثین کرام نے اس کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس راوی کے متعلق یہ الفاظ استعمال کریں وہ سخت ضعیف ہوتا ہے۔[2]
اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا تھا۔ 3[3]لیکن اس کی سند میں مشہور ضعیف راوی جابر جعفی ہے، لہٰذا یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ بہرحال جنازہ پڑھنے کے متعلق جس قدر روایات کتب حدیث میں مروی ہیں وہ ضعیف ہیں یا مرسل، اس قسم کی روایات محدثین کے ہاں قابل حجت نہیں ہیں، تفصیل کے لیے نصب الرایہ، ص: ۲۷۸،ج۲ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
آپ کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق صحیح روایات موجود ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ [4]اس روایت کے متعلق حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ھذا خبر صحیح ’’یہ صحیح خبر ہے۔‘‘ [5]
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں ہے۔‘‘ [6]
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے خادم خاص کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا ہوتا تو کم از کم حضرت انس رضی اللہ عنہ پر یہ بات مخفی نہ رہتی۔ بعض اہل علم نے جنازہ نہ پڑھنے کی مختلف توجیہات ذکر کی ہیں کہ آپ اس دن سورج گرہن لگنے کی وجہ سے مصروف تھے، اس لیے آپ نے اپنے لخت جگر کا جنازہ نہیں پڑھایا، آپ نے خود نہیں پڑھا لیکن دوسروں کو اس سے منع نہیں فرمایا وغیرہ۔
ہمارے نزدیک یہ توجیہات محل نظر ہیں، البتہ یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ نابالغ بلکہ نا تمام بچے کی نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں پہلو برابر ہیں، اس حدیث کو واضح کرنے کے لیے آپ نے عملی طور پر اپنے لخت جگر کا جنازہ نہیں پڑھا اور اپنے ارشادات سے اس قسم کے جنازے کی مشروعیت کو اجاگر فرمایا ہے البتہ بالغ حضرات کا جنازہ پڑھنا تمام مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۱۱۔
[2] حاشیہ ابن ماجہ، حدیث نمبر۱۵۱۱۔
[3] مسند امام احمد،ص: ۲۸۳،ج۴۔
[4] ابوداود، الجنائز: ۳۱۸۷۔
[5] محلیٰ ابن حزم، ص: ۱۵۸،ج۵۔
[6] مسند امام احمد، ص: ۲۸۱،ج۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب