سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) مرنے والے کے پاس سورہ یٰسین پڑھنا

  • 19827
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 4404

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ صحیح ہے کہ مرنے والے کے پاس سورۂ یٰسین پڑھنے سے اس کی روح آسانی سے قبض ہو جاتی ہے؟ ہمارے ہاں ایسے موقع پر سورۂ یٰسین تلاوت کرنے کا عام رواج ہے، اس کی شرعی حیثیت واضح کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قریب الموت انسان کے پاس تلاوت قرآن خاص طور پر سورۂ یٰسین پڑھنے کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں ہے بلکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میت کے قریب سورۃ یٰسین پڑھنے کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔[1]

 عام طور پر اس سلسلہ میں دو روایات پیش کی جاتی ہیں جو محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔

1) حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مرنے والوں کے قریب سورۃ یٰسین پڑھا کرو۔‘‘[2] ابن قحطان نے اس حدیث کو اضطراب اور ابو عثمان کی جہالت کی بناء پر معلول قرار دیا ہے، ابوبکر ابن العربی نے امام دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف السند اور مجہول المتن ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس باب میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ [3]

2) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’جس میت پر سورۂ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔ [4]

 یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں مروان بن سالم راوی ثقہ نہیں ہے۔[5]

 ابو عروبہ نے کہا کہ یہ راوی موضوع احادیث بیان کرتا ہے۔ [6]

 بہرحال قریب الموت شخص کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہیے جس کی دو صورتیں ہیں۔

(الف) اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ وہ دیکھ کر اسے پڑھے اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔

(ب) اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کے متعلق کہا جائے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے، لیکن سورۃ یٰسین وغیرہ کی تلاوت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] احکام الجنائز، ص: ۱۱۱۔

[2] مسند امام احمد، ص: ۵۲۶۔

[3] تلخیص الحبیر، ص: ۱۰۴،ج۲۔   

[4] اخبار اصبہان، ص: ۱۸۸،ج۱۔

[5] میزان اعتدال، ص: ۹۰،ج۴۔

[6] تلخیص، ارواء الغلیل،ص: ۱۵۲،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:174

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ