سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا جنازہ

  • 19826
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2044

سوال

(177) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا جنازہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو بچہ مردہ پیدا ہو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے، نیز اسے کہاں دفن کیا جائے؟ ہمارے ہاں اس کا نہ تو جنازہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستانوں میں اسے دفن کیا جاتا ہے، اس کے متعلق وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نومولود بچہ اگر فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔‘‘ [1]

 ایک روایت بایں الفاظ ہے: ’’ناتمام بچے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔‘‘ [2]

 اس حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ اس کے والدین کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے اور اس کا جنازہ پڑھا جائے۔ [3]

 اور یہ بات ظاہر ہے کہ نا تمام سے مراد وہ بچہ جو اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ پورے کر چکا ہو، اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو پھر اس کی موت واقع ہوئی ہو، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے، تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔[4] اگر کوئی چار ماہ کی مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ اسے اس صورت میں میت نہیں کہا جا سکتا۔

 ایک روایت میں ہے کہ اس بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو پیدا ہونے کے بعد چیخ مارے اور اسے وارث بھی بنایا جائے۔[5]

 امام ترمذی نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے،الغرض چارماہ کے بعد اگر بچہ نا تمام یعنی مردہ پیدا ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا مشروع ہے، نیز اسے گھر میں دفن نہیں کرنا چاہیے بلکہ مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے، بعض جہلا اس کا نام رکھتے ہیں اور اس کا عقیقہ بھی کرتے ہیں، یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں، کیونکہ نام رکھنا اور عقیقہ کرنا زندہ ہونے والے بچے کے ساتویں دن ہوتا ہے، واضح رہے نا تمام بچے کا اگر جنازہ نہ پڑھا جائے تو بھی جائز ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ نہیں پڑھا تھا جن کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال تھی۔ (واللہ اعلم)


[1] جامع ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۱۔

[2] ابوداود، الجنائز: ۳۱۸۰۔  

[3] ابوداود، حدیث: ۳۱۸۰۔

[4] بخاری، بدء الخلق: ۳۲۰۸۔

[5] ترمذی، الجنائزء: ۱۰۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:173

محدث فتویٰ

تبصرے