السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بارش کی وجہ سے اگر قبر گر جائے تو کیا قبر کو درست کیا جا سکتا ہے، اگر میت کو نکالنا پڑے تو کیا شرعاً اس کی اجازت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر قبر گرنے سے آیندہ اس کے معدوم ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے مرمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قبر کو برقرار رکھنا اور اس کی شناخت کے لیے اس پر پتھر وغیرہ رکھنا مشروع ہے، اس بناء پر مسمار شدہ قبروں کو درست کیا جا سکتا ہے، ضرورت پڑنے پر میت کو بھی قبر سے نکالا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے’’کیا کسی ضرورت کے پیش نظر میت کو قبر یا لحد سے نکالا جا سکتا ہے؟ پھر آپ نے وہ حدیث ذکر کی ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کو قبر میں داخل کرنے کے بعد دوبارہ نکالا گیا اور آپ نے اپنی قمیص پہنائی پھر اسے دفن کیا گیا۔[1] نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد گرامی کو دفن کرنے کے چھ ماہ بعد قبر سے نکالا اور دوسری جگہ پر دفن کیا تھا، ان کے صرف کان کا تھوڑا سا حصہ متاثر ہوا تھا، باقی جسم اسی طرح تھا گویا ابھی دفن کیا گیا ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت لی ہو گی، کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے، پھر چھیالیس سال بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ان کی دوبارہ قبر کشائی کی گئی اور انہیں نکال کر کسی دوسری جگہ دفن کیا گیا، کیونکہ سیلاب کی وجہ سے قبریں مسمار ہو چکی تھیں نیز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وہاں پانی کا ایک چشمہ جاری کرنا چاہتے تھے۔ [2]
بہرحال اگر میت کو دفن کیے ہوئے زیادہ عرصہ بیت گیا ہو تو میت کو نکالنے کے بجائے قبر کو ہی درست کر دیا جائے، عام طور پر دفن کے چھ ماہ بعد زمین میت پر اثر انداز ہونے کا آغاز کرتی ہے، اگر میت کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے نکال کر کفن سے مٹی وغیرہ دور کر دی جائے پھر اسے دفن کر دیا جائے، ایسا کرنا صرف جائز ہے ضروری نہیں، اس گنجائش کے باوجود ہمارا ذاتی رجحان یہ ہے کہ میت کو اپنی جگہ پر رہنے دیا جائے اور صرف قبر پر مٹی ڈال کر اسے درست کر دیا جائے، کیونکہ معلوم نہیں میت کس حالت میں ہو؟ ایسا نہ ہو کہ اسے نکال کر کسی دیگر پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۱۳۵۱۔
[2] موطا امام مالک، کتاب الجہاد
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب