سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(173) خیانت کرنے والے کا جنازہ

  • 19822
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 663

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ خیبر کے دن ایک آدمی فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم اس کی نماز جنازہ پڑھو۔‘‘ (میں نہیں پڑھوں گا) اس نے مالِ غنیمت سے خیانت کا ارتکاب کیا تھا۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس حکم سے دو طرح کے لوگ مستثنیٰ ہیں، ان کی نماز جنازہ ادا کرنا فرض نہیں، ان میں سے ایک نابالغ بچہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابراہیم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ اب بتایا جائے کہ ابراہیم نے کون سی خیانت کی تھی جس بناء پر جنازہ نہ پڑھا گیا۔ اس کے علاوہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کا جنازہ پڑھا تھا جیسا کہ ابن ماجہ میں اس امر کی صراحت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ سوال میں نماز جنازہ کے متعلق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  کا مؤقف کئی ایک احادیث میں موجود ہے، ان احادیث میں سے ایک حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس میں ایک صحابی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم اس کی نماز جنازہ پڑھو۔‘‘ لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا کیونکہ اس نے مال غنیمت کے سامان سے کچھ خیانت کی تھی جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے۔ [1]

 اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان کا جنازہ پڑھنا فرض ہے چونکہ آپ نے نہیں پڑھا اس لیے فرض عین کے بجائے فرض کفایہ ہے، اس حکم سے دو طرح کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک نابالغ بچہ اور دوسرا میدان کارزار میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والا شہید، اس سلسلہ میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل پیش کیا ہے کہ آپ نے اپنے لخت جگر ابراہیم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ [2]

 جنازہ نہ پڑھنے کا سبب نعوذ باللہ خیانت وغیرہ نہ تھی جیسا کہ سوال میں تاثر دیا گیا ہے، اس کی وجہ بیان جواز ہو سکتی ہے۔ جن روایات میں حضرت ابراہیم کے جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ وہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’وہ روایات معلول ہیں، مرسل ہیں یا ان میں ضعف شدید پایا جاتا ہے، جیساکہ نصب الرایہ ص: ۲۷۹ میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔‘‘ [3]

 انہوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں ایک دوسری روایت بھی پیش کی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا، آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کا جنازہ پڑھا تھا؟ انہوں نے جواب دیا مجھے علم نہیں ہے۔[4] اگر آپ نے جنازہ پڑھا ہوتا تو کم از کم خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ پر یہ بات مخفی نہیں رہتی جبکہ وہ سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہے ہیں اور دس سال تک آپ کی خدمت کی ہے۔ بہرحال بچے کا جنازہ عام مسلمانوں کی طرح فرض نہیں ہے بلکہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک الگ عنوان قائم کیا ہے۔


[1] ابوداود، الجہاد: ۲۷۱۰۔

[2] ابوداود، الجنائز: ۳۱۸۷۔

[3] حاشیہ احکام الجنائز، ص: ۸۰۔

[4] مسند امام احمد،ص: ۲۸۱،ج۳۔   

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ