سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172) نا تمام بچے کا جنازہ؟

  • 19821
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ نا تمام بچے کی ولادت پر اس کا جنازہ ادا کیا جائے گا جب کہ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ اس بچے کا جنازہ پڑھا جائے جو پیدائش کے وقت چیخ مارے۔ ترمذی میں ہے کہ بچے کا نہ جنازہ پڑھا جائے او رنہ ہی اسے وارث بنایا جائے تا آنکہ وہ چیخ مارے اور بخاری میں ہے کہ جب بچہ چیخ مارے تو اس کا جنازہ ادا کیا جائے اور جو چیخ نہ مارے اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے کیونکہ وہ ناتمام پیدا ہوا ہے، ان احادیث میں بظاہر تعارض ہے تطبیق کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بچے کا جنازہ پڑھنا جائز ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔‘‘ [1]

 امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’اس حدیث پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ بچے کا جنازہ پڑھا جائے اگرچہ وہ پیدائش کے وقت چیخ نہ مارے لیکن اس میں روح ڈالی جا چکی ہو۔‘‘ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ناتمام بچے کا بھی جنازہ پڑھا جائے اور اس کے والدین کے لیے بخشش اور رحمت کی دعا کی جائے۔‘‘ [2]

 اور نا تمام بچے سے مراد وہ ہے جو شکم مادر میں چار ماہ پورے کر چکا ہو اور اس میں روح پھونکی جا چکی ہو، پھر وفات پائے البتہ اس سے پہلے کی صورت میں نماز ادا نہیں ہو گی اس لیے کہ ایسی حالت میں اسے میت نہیں کہا جا سکتا جیسا کہ اس بات کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے: ’’تمہاری پیدائش اس طرح ہے کہ چالیس دن تک وہ ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن لوتھڑے کی شکل میں پھر اتنے ہی دن بوٹی کی صورت اختیار کر لیتا ہے پھر ایک فرشتہ بھیج دیا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔‘‘ [3]

 ایک حدیث میں ہے کہ جب بچہ چیخ مارے تو جنازہ پڑھا جائے اور اسے وارث بنایا جائے۔ [4] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ناقابل حجت ٹھہرایا ہے۔ [5]سوال میں جامع ترمذی کی ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’بچے کا نہ جنازہ پڑھا جائے اور نہ ہی اسے وارث بنایا جائے تاآنکہ وہ چیخ مارے۔‘‘ [6]

 امام ترمذی نے اسے بیان کرنے کے بعد مضطرب قرار دیا ہے۔ البتہ بچے کو ترکہ میں سے حصہ دینے کی شرط ضرور ہے کہ وہ پیدائش کے وقت چیخ مارے لیکن نماز جنازہ کے لیے اس کا چیخ مارنا شرط نہیں ہے۔ سوال میں صحیح بخاری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ دراصل یہ حدیث نہیں بلکہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے وہ فرماتے ہیں: ’’جب بچہ چیخ مارے تو اس کا جنازہ ادا کیا جائے اور جو چیخ نہ مارے ، اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے، کیونکہ وہ ناتمام پیدا ہوا ہے۔‘‘[7]

 ظاہر ہے کہ امام زہری کے قول کی مرفوع حدیث کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس سلسلہ میں ابوداؤد کے حوالے سے مرفوع حدیث قبل ازیں بیان کی جا چکی ہے۔ بہرحال بچے کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے خواہ وہ ناتمام ہی پیدا ہوا ہو اور جن احادیث میں جنازہ کے لیے چیخ مارنے کی شرط بیان کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہیں، البتہ وراثت میں اسے شریک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیخ مارے جو اس کے زندہ پیدا ہونے کی علامت ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] جامع ترمذی، الجنائز ۱۰۳۱۔

[2] ابوداود، الجنائز: ۳۱۸۰۔  

[3] صحیح بخاری، بدء الخلق: ۳۲۰۸۔

[4] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۰۸،یہ روایت ضعیف ہے؛ نصب الروایۃ، ص: ۲۷۷،ج۲-

[5] احکام الجنائز،ص: ۸۱۔

[6] ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۲۔  

[7] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۵۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:170

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ