السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بندہ سے اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن آف پاکستان (بیمہ زندگی) والوں کا واسطہ پڑا۔ بہرکیف انہوں نے بیمہ زندگی کے بارے مجھے کئی دلائل دیئے:
(1) یہ کرانے والا کچھ رقم دیتا ہے اور مقررہ مدت کے درمیان فوت ہو جائے تو مقررہ رقم ورثا کو ملتی ہے۔ پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود ہے جو نیت نیک ہے سود خوری اور سود خورانی مقصود نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ مفسد اور مصلح کو خوب جانتا ہے۔
(2) چونکہ لگائی گئی رقم سے ادارہ کاروبار کرتا ہے اور کاروبار کا منافع یا بونس بیمہ دار کو ملتا ہے جیسے ایک آدمی کچھ رقم کسی کو دے دیتا ہے اور کاروبار میں حصہ ڈال دیتا ہے اور مناسب منافع لیتا ہے۔
(3) چونکہ رقم اقساط کی صورت میں دے کر بمنافع مدت گذرنے پر وصول کر لی جاتی ہے۔
(4) موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیمہ انسان کی ضرورت کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
(5) بچت کر کے رقم ۔ بچوں کے لیے مستقبل حالات کے لیے رکھی جاتی ہے اور اسی قسم کو ادارہ استعمال کر کے منافع کی صورت میں لوٹا دیتا ہے ۔ جس کی شرح فکس (لازم) نہیں ہے۔
(6) چونکہ بنکاری نظام میں نفع ونقصان کی شراکت سے کاروبار ہوتا ہے۔ جبکہ اس ادارے نے بھی یہ کاروبار کر رکھا ہے مگر بنک کی شرح فیصد فکس ہے۔ جبکہ اسٹیٹ لائف انشورنش (بیمہ زندگی) کے کاروبار میں شرح فکس نہیں ہے۔
(7) یہ جوا نہیں ہے نہ پرائز بانڈ سسٹم ہے ۔ نہ لاٹری ہے۔
یہ سب دلائل محکمہ انشورنش کی جانب سے دئیے گئے ۔ بیمہ زندگی کا کاروبار ناجائز ہونے کی صورت میں عقلی دلائل اور فقہی رو سے مفصّل تحریر فرما کر جواب سے مستفیض فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا مکتوب موصول ہوا جناب کے نقل کردہ دلائل کے جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں بتوفیق اللہ تبارک وتعالیٰ وعونہ (۱) کسی عمل کے حق ودرست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتاب وسنت کے موافق ، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکی اطاعت وفرمانبرداری پر مشتمل ہو قرآن مجید میں ہے :
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَلَا تُبۡطِلُوٓاْ أَعۡمَٰلَكُمۡ﴾--محمد33
’’اے مسلمانو ! تم اللہ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کیا کرو‘‘ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :
«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»صحيح مسلم-صحيح بخارى كتاب البيوع ج1ص287
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے امر (شریعت) میں موجود نہیں وہ مردود ہے‘‘ صرف نیت کے نیک ہونے سے عمل حق ودرست نہیں بنتا مثلاً کوئی آدمی کسی بیوہ کی جنسی خواہش پوری کرنے کی نیت سے اس کے مطالبہ پر اس کے ساتھ وطی کرتا ہے تو اس نیک نیتی کی بنا پر اس کی یہ وطی حق ودرست نہیں بنے گی بلکہ زنا کی زنا ہی رہے گی بالکل اسی طرح بیمہ کی صورت میں ’’پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود نیت نیک ہونے اور سود خوری وسودخورانی مقصود نہ ہونے‘‘ سے سود حق ودرست نہیں بنے گا بلکہ حرام کا حرام ہی رہے گا قرآن مجید میں ہے : ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ ’’اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘ حدیث میں ہے :
«دِرْهَمُ رِبًا يَأْکُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلاَثِيْنَ زِنْيَةً»مشكوة باب الربا
’’سود کا ایک درہم جس کو کوئی آدمی کھاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے چھتیس مرتبہ زناکرنے سے زیادہ سخت ہے‘‘
حدیث: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» کے آخری حصہ میں رسول اللہﷺنے ہجرت کا ذکر فرمایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘ میں مراد اعمال صالحہ ہیں اور معلوم ہے کہ سود اعمال صالحہ میں شامل نہیں اعمال سیئہ میں شامل ہے لہٰذا نیک نیتی والی بات اس اثناء میں پیش کرنی بے محل ہے۔ اللہ تعالیٰ واقعی مفسد اور مصلح کو خوب جانتا ہے اسی لیے اس نے فرمایا «وَحَرَّمَ الرِّبَا» نیز فرمایا «یَمْحَقُ اﷲُ الرِّبَا» مزید فرمایا
﴿وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ ۔ فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ فَأۡذَنُواْ بِحَرۡبٖ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۖ﴾--بقرة278
تو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سود نہ چھوڑنے والے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہﷺ کے ساتھ جنگ ولڑائی کر رہے ہیں اور واضح ہے ایسے لوگ مفسد ہی ہو سکتے ہیں مصلح نہیں ہو سکتے نیت خواہ وہ کتنی ہی نیک بنا لیں۔
پھر بیمہ کمپنیوں کے بیمہ نہ کرانے والوں کے مرنے کے بعد ان کے وارثوں کو کچھ نہ دینے سے ان کی ’’پسماندگان میت کی فائدہ رسانی مقصود ہے جو نیک نیت ہے سود خوری اور سود خورانی مقصود نہیں‘‘ والی بات کا بھرم بھی کھل جاتا ہے۔
(2) ادارہ سودی کاروبار ہی کرتا ہے ادارے نے سود ہی کا نام منافع یا بونس رکھا ہوا ہے پھر کسی کاروبار کے حق درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاروبار شرعاً حلال ہو کوئی بھی کاروبار اس وجہ سے حق ودرست نہیں بن پاتا کہ وہ کاروبار ہے دیکھئے خمر وخنزیر کی تجارت بھی کاروبار ہے مگر وہ کاروبار ہونے کی وجہ سے جائز ودرست نہیں ہو پاتی کیونکہ خمر وخنزیر کی تجارت شرعاً حرام ہے۔
(3) چونکہ یہ منافع سود کے زمرہ میں شامل ہے اس لیے ناجائز ہے۔
(4) موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خمر وخنزیر کی تجارت انسان کی ضرورت کا ذریعہ ہو سکتا ہے پھر کاروبار عصمت فروشی بھی انسان کی ضرورت کا ذریعہ ہو سکتا ہے تو کیا ضرورت کا ذریعہ ہونے یا ہو سکنے کی بنا پر خمر وخنزیر کی تجارت اور کاروبار عصمت فروشی جائز ودرست ہوں گے ؟ نہیں ہر گز نہیں تو بالکل اسی طرح کاروبار سود بیمہ یا غیر بیمہ ضرورت کا ذریعہ ہونے کی بنا پر جائز ودرست نہیں ہو گا کیونکہ شریعت نے خمر وخنزیر کی تجارت ، کاروبار عصمت فروشی اورکاروبار سود (خواہ وہ سود بیمہ ہو یا سود غیر بیمہ) کو حرام قرار دے دیا ہے۔
(5) ادارہ جو رقم بطور منافع دیتا ہے وہ سود ہی ہے اس کی شر ح فکس ہو خواہ فکس نہ ہو سود کے فکس نہ ہونے سے نہ اس کی حقیقت بدلتی ہے اور نہ ہی اس کا حکم بدلتا ہے دونوں صورتوں میں وہ سود کا سود اور حرام کا حرام ہی رہتا ہے کیونکہ فکس ہونا نہ تو سود کا جزء ہے ، نہ ہی اس کی شرط ہے اور نہ اس کا لازم ہے ۔
(6) جہاں تک مجھے معلوم ہے پاکستان میں موجود بینکاری نظام میں شرعی مضاربت نام کی کوئی چیز نہیں جس کو بینک والے نفع ونقصان کی شراکت والا کاروبار کہتے ہیں وہ بھی سود ہی ہے آگے شرح فکس ہو خواہ فکس نہ ہو وہ سود ہی رہتا ہے لہٰذا اسٹیٹ لائف انشورنش والوں کا سود کی شرح فیصد یا غیر فیصد کو مقرر ومتعین نہ کرنا ان کے اس کاروبار کو سود ہونے سے نہیں نکالتا بلکہ وہ جوں کا توں سود ہی رہتا ہے اور سود حرام ہے ۔
(7) زبانی کلامی نہیں یا نہ کہہ دینے سے واقع میں نہ ہونا لازم نہیں آتا پھر ان تینوں کے نہ ہونے کو تسلیم کر لینے سے بھی بیمہ کے سود ہونے کی نفی نہیں ہوتی تو بیمہ سود اور جوا ہونے کی وجہ سے حرام ہے اگر کوئی اس کے جوا نہ ہونے پہ بضد ہو جائے تو بھی بیمہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہی ہو گا جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
نوٹ : آپ کا فرمان ’’علم سے استفادہ حاصل کرنا نوع انسان کا حق ہے‘‘ بجا مگر جس علم سے فائدہ حاصل کرنے کو شریعت نے گناہ قرار دیا ہو اس سے فائدہ حاصل کرنا نوع انسان کا حق نہیں مثلاً علم سحر آپ علم سحر سے استفادہ نہیں کر سکتے کیونکہ شریعت نے اس کو کفر وگناہ قرار دیا ہے
﴿وَمَا كَفَرَ سُلَيۡمَٰنُ وَلَٰكِنَّ ٱلشَّيَٰطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ ٱلنَّاسَ ٱلسِّحۡرَ﴾- ﴿وَلَقَدۡ عَلِمُواْ لَمَنِ ٱشۡتَرَىٰهُ مَا لَهُۥ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنۡ خَلَٰقٖۚ﴾--بقرة102
’’اور سلیمان نے کفر نہیں کیا ہاں شیاطین نے کفر کیا لوگوں کو جادو سکھاتے تھے حالانکہ یقینا جان چکے تھے کہ جو شخص اس کو لے گا قیامت میں اس کے لیے حصہ نہیں‘‘ رسول اللہﷺ نے بھی سحرکو السبع الموبقات (سات ہلاک کر دینے والے گناہوں) میں شمار فرمایا ہے تو جس طرح علم سحر سے فائدہ اٹھانا نوع انسان کا حق نہیں بالکل اسی طرح علم ریاضی کے شعبہ سود سے فائدہ اٹھانا بھی نوع انسان کا حق نہیں کیونکہ شریعت نے سحر اور سود دونوں سے منع فرمایا ہے پھر اگر اسی دلیل کو لے کر دو چار چور یا ڈاکو کہہ دیں کہ ہمارے کاروبار چوری اور ڈاکے کی بنیاد علم ریاضی پر ہے آخر وہ بھی چوری یا ڈاکے کے ذریعہ ہتھیائے ہوئے مال کو ریاضی کے اصول کے تحت ہی تقسیم کریں گے تو کیا اس سے ان کا چوری یا ڈاکے والا کاروبار حق ودرست بن جائے گا نہیں ہر گز نہیں تو بالکل اسی طرح سود بیمہ یا غیر بیمہ کی بنیاد علم ریاضی پر ہونے سے وہ جائز وحلال نہیں ہو گا بلکہ حرام کا حرام ہی رہے گا۔
جناب کا فرمان ’’کائنات کے مادی وسائل کو استعمال کرنا بھی اس کا حق ہے‘‘ بھی بجا مگر جن مادی وسائل سے شریعت نے منع فرما دیا ان کو استعمال کرنا اس (بنی نوع انسان) کا حق نہیں مثلاً خمر وخنزیر کی تجارت ، کاروبار عصمت فروشی چوری اور ڈکیتی مادی وسائل میں شامل ہیں مگر ان کو استعمال کرنا نوع انسانی کا حق نہیں کیونکہ اسلام نے ان سے منع فرما دیا ہے بالکل اسی طرح سود بیمہ اور سود غیر بیمہ مادی وسائل میں شامل ہیں مگر ان کو استعمال کرنا نوع انسان کا حق نہیں کیونکہ اسلام نے ان سے بھی منع فرما دیا ہے۔
دیکھئے اگر کوئی اباحی ذہن رکھنے والا کہے ’’ماں ، بہن ، بیٹی ، بھتیجی ، بھانجی ، خالہ ، پھوپھی ، مملوکہ لونڈی اور بیوی تمام جنسی خواہش پورا کرنے کے وسائل ہیں اور جنسی خواہش کو پورا کرنے کے وسائل استعمال کرنا نوع انسان کا حق ہے ‘‘ تو آپ کا جواب کیا ہو گا ؟ یہی نا کہ بیوی اور مملوکہ لونڈی کے علاوہ کو استعمال کرنا نوع انسان کا حق نہیں کیونکہ دین فطرت اسلام نے بیوی اور مملوکہ لونڈی کے علاوہ کو استعمال کرنے سے منع فرما دیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
﴿وَٱلَّذِينَ هُمۡ لِفُرُوجِهِمۡ حَٰفِظُونَ ۔ إِلَّا عَلَىٰٓ أَزۡوَٰجِهِمۡ أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُهُمۡ فَإِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُومِينَ ۔ فَمَنِ ٱبۡتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡعَادُونَ﴾--المؤمنون5.6.7
’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں حتی کہ اپنی عورتوں اور باندیوں کے سوا کسی سے نہیں ملتے ان پر کوئی ملامت نہیں ہاں جو لوگ اس کے سوا اور طریق اختیار کرتے ہیں وہی حدود سے بڑھنے والے ہیں‘‘
رہا آپ کا قول ’’کیا اس سے (بیمہ سے) صرف ترقی یافتہ ممالک ہی فائدہ لیں یا ہم بھی اس کاروبار سے فائدہ لے لیں؟ ‘‘ تو اس کے جواب میں یہی عرض کروں گا آپ ہی فرمائیں ’’کیا خمر وخنزیر کی تجارت ، کاروبار عصمت فروشی ، چوری ، ڈکیتی ، کاروبار سحر اور دیگر حرام اشیاء سے صرف ترقی یافتہ ممالک ہی فائدہ لیں یا ہم بھی ؟ تو واضح ہے چونکہ آپ اباحی ذہن نہیں رکھتے نیز پکے سچے مسلم ہیں اس لیے یہی فرمائیں گے ہم ان چیزوں سے فائدہ نہیں لیں گے کیونکہ دین فطرت اسلام نے ان چیزوں سے منع فرما دیا ہے باقی رہا ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک یا کسی ایک ملک کا ان سے فائدہ لینا سو وہ ہمارے لیے سند جواز نہیں ہمارے لیے سند ودلیل صرف اور صرف کتاب وسنت ہے
﴿فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ﴾--النساء59
’’پھر اگر کسی معاملے میں تم میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسولﷺ کی طرف پھیرو‘‘
تو بات بالکل واضح ہے کہ سود بیمہ یا سود غیر بیمہ سے ترقی یافتہ ممالک یا غیر ترقی یافتہ ممالک فائدہ لیں خواہ نہ لیں ہم اس کاروبار سے فائدہ نہیں لے سکتے کیونکہ کتاب وسنت نے اس کاروبار کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ خمر وخنزیر کی تجارت سے کوئی ترقی یافتہ ملک فائدہ لے یا نہ لے ہم خمر وخنزیر کی تجارت والا کاروبار نہیں کر سکتے اس لیے کہ کتاب وسنت نے اس کاروبار کو حرام قرار دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب