السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حدیث میں ہے کہ میت کے گھر اجتماع کو ہم نوحہ شمار کرتے تھے، اس حدیث کا حوالہ درکار ہے اور اس کا مطلب بھی بیان کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم میت کے اہل خانہ کے پاس جمع ہونے اور تدفین کے بعد کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔ [1] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے۔[2]
حافظ بوصیری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ [3] اس حدیث میں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں۔
1 میت کے گھر تعزیت کے لیے اجتماع کرنا اور وہاں کھانے کا اہتمام کرنا نوحہ ہے۔
2 نوحہ حرام ہے جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کی حرمت کا ذکر ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے متعلق اطلاع ملی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’جعفر رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ انہیں ایسی تکلیف دہ خبر موصول ہوئی ہے جو انہیں کھانا پکانے سے مشغول رکھے گی۔‘‘ [4]
یہ دونوں احادیث آپس میں متعارض معلوم ہوتی ہیں، ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر اہل میت کے لیے کوئی دوسرا آدمی یا گھر کھانا تیار کر کے لائے اور انہیں کھلانے کا اہتمام کرے تو درست ہے لیکن میت کے گھر دوسرے لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا اوراجتماع کے لیے اہتمام کرنا منع ہے، اس لیے میت کے گھر تعزیت کے لیے خصوصی طور پر اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے گھر آئے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنا جائز ہے، البتہ میت کی وجہ سے چونکہ اہل خانہ پریشان خاطر ہیں، ان کے لیے باہر سے کھانا تیار کر کے لانا اور انہیں کھلانے کا اہتمام مستحب ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۶۱۲۔
[2] مسند امام احمد، ص: ۲۰۴،ج۲۔
[3] مجمع الزوائد، ص: ۵۳۵، ج۱۔
[4] ابوداود، الجنائز: ۳۱۳۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب