سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) قرآنی دعاؤں کا صیغہ بدلنا

  • 19809
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 2081

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم میں بہت سی دعائیں منقول ہیں، کیا ان کی ضمیروں کو بدلا جا سکتا ہے یعنی واحد کوجمع اور جمع کو واحد کرنا جائز ہے؟ مثلاً قرآن میں ہے: ﴿رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ کیا اسے اجتماعی طور پر رَبَّنَا زِدْنَا عِلْمًا پڑھا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و حدیث میں آنے والی دعاؤں میں اپنی طرف سے تبدیلی جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا حد اعتدال سے تجاوز کرنا ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔"میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعا کرتے وقت حد اعتدال سے تجاوز کریں گے۔"[1]

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دعا سکھائی جس میں یہ الفاظ تھے۔وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.

انھوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ دعا یاد کر کے سنائی تو بایں الفاظ پڑھا:

"وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" یعنی انھوں نے نَبِيِّكَ کے بجائے"رَسُولِكَ پڑھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.کے الفاظ ہی یاد کرو۔"[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتائی ہوئی دعا میں ترمیم کو قبول نہ فرمایااس بنا پر ہمارے رجحان کے مطابق تذکیرو تانیث یا واحد جمع کا اعتبار کرتے ہوئے ضمیروں کو بدلنا جائز نہیں ہے،اگر کوئی امام ہے تو اسے چاہیے کہ الفاظ وہی ادا کرے جو قرآن و حدیث میں ہیں البتہ نیت جمع کی کرے یعنی الفاظ بدلنے کی بجائے مقتدی حضرات کونیت میں شامل کر لےبعض حضرات آیت کریمہ میں إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ میں انا كنا من الظالمين بولنے کی تلقین کرتے ہیں ایسا کرنا جائز نہیں ہے صورت مسئولہ میں رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا کو رَبَّنَازِدْنِا عِلْمًا پڑھنا بھی محل نظر ہے اگر مقتدی حضرات کو دعا کرتے وقت شامل کرنا ہے اور جمع کے الفاظ لانے میں تو درج ذیل  دعا پڑھ لی جائے۔

" اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِمَا عَلَّمْتَنَا , وَعَلِّمْنَا مَا يَنْفَعُنَا , وَزِدْنَا عِلْمًا "

اے اللہ! ہمیں جو تونے علم سکھایا ہے اسے ہمارے لیے نفع مند بنا اور ہمیں ایسا علم عطا فرما جو ہمیں نفع دے ہمارے علم میں اضافہ فرما۔"

بہر حال آئمہ کرام کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے حساس مسائل میں سمجھ داری سے کام لیا کریں، اللہ تعالیٰ بصیرت ودانائی سے ہمیں بہرہ ور کرے ۔(آمین)


[1] ۔ابو داؤد،الوتر۔1480۔

[2] ۔صحیح بخاری،الوضو:247۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:158

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ