السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری ہمشیرہ بیمار ہے ہم نے اس کابہت علاج معالجہ کرایا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، آخر ایک تعویذ گنڈا کرنے والے نے ہمیں کہا ہے کہ اسے کسی بکری کے خون میں غسل دیا جائے، ایسی حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہماری راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیمار کا علاج معالجہ کرنا سنت ہے لیکن اس سلسلہ میں یہ احتیاط کی جائے کہ علاج معالجہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کیا جائے، سوال میں جس تعویذ گنڈا کرنے والے کا ذکر ہے ایسے لوگ شعبدہ باز اور کاہن ہوتے ہیں، ان کے پاس مسائل حل کرانا، ان سے کچھ دریافت کرنا یا ان کی بات ماننا جائز ہی نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے، اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس رات تک کوئی نماز قبول نہیں ہو گی۔‘‘ [1] اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے گویا ان تعلیمات کا انکار کر دیا جو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہیں۔[2]جہاں تک غسل کرنے کا تعلق ہے تو ذبح کرتے وقت حلال جانور کا جو خون نکلتا ہے یہ حرام ہے جیسا کہ نص قرآن سے ثابت ہے اور حرام چیزوں کا بطور دواء استعمال کرنا بھی ناجائز ہے جیسا کہ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ﷲ تعالیٰ نے بیماری اور اس کا علاج نازل کیا ہے اورہر بیماری کے لیے اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے لہٰذا بیماری کا علاج کیا کرو لیکن حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔‘‘ [3] اس سلسلہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے: ’’ﷲ تعالیٰ نے حرام اشیاء میں تمہارے لیے قطعاً کوئی شفا نہیں رکھی ہے۔‘‘ [4]لوگوں نے ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے ساتھ علاج کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شراب دوا نہیں بلکہ بذات خود وہ بیماری ہے۔‘‘[5]
ان دلائل کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ بیماری کا علاج کرنا اور کرانا سنت سے ثابت ہے لیکن حرام چیزوں کو بطور دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے بکری کے خون سے غسل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے اور حرام چیز کو بطور علاج استعمال کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)
[1] مسند امام احمد، ص: ۴۲۹، ج۲۔
[2] ابو داود، الکہانہ: ۳۹۰۴۔
[3] جامع ترمذی، الطب: ۲۰۳۸۔
[4] صحیح بخاری، معلقًا قبل حدیث: ۵۶۱۴۔
[5] ابو داود، الطب: ۳۸۷۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب