السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں عیدین کی نماز کے لیے جو وقت مقرر کیا جاتا ہے، اس میں کافی اختلاف ہوتا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عیدالاضحی کے بعد قربانی کرنی ہوتی ہے اس لیے اس کی ادائیگی میں جلدی کی جائے جب کہ عیدالفطر کو ذراتاخیر سے پڑھا جائے، بہرحال جب سورج طلوع ہو کر بلند ہو جائے تو نماز عید کا وقت شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اس وقت پڑھتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور عیدالاضحی اس وقت ادا کرتے جب سورج ایک نیزے کے برابر ہو جاتا ہے۔ [1]
اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’نماز عیدین کے وقت کی تعیین میں سب سے اچھی وارد شدہ حدیث یہی حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے۔‘‘ [2]
اس کی تائید حضرت عبداﷲ بن بسر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، روایت میں ہے کہ وہ لوگوں کے ہمراہ عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ کے دن نکلے تو انہیں امام کے تاخیر کرنے پر انتہائی تعجب ہوا، انہوں نے فرمایا کہ ہم تو اس وقت نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے ہوتے تھے اور وہ چاشت کا وقت تھا۔ [3]
بہرحال اسے طلوع آفتاب کے فوراً بعد نہیں ادا کرنا چاہیے اور نہ ہی بلاوجہ اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جائے، اس کی ادائیگی کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو زوال آفتاب کے بعد عید کا چاند نظر آنے کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل صبح لوگ نماز عید ادا کرنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں۔‘‘ [4]
[1] تلخیص الحبیر، ص: ۱۶۷، ج۲۔
[2] نیل الاوطار، ص: ۵۹۲، ج۲۔
[3] ابو داود، الصلوٰۃ: ۱۱۳۵۔
[4] ابو داود، الصلوٰۃ: ۱۱۵۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب