سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) جان بوجھ کر نماز دیر سے پڑھنا

  • 19784
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1453

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ایک نمازی، دیر سے نماز پڑھتے ہیں اور تکبیر کہہ کر اکیلے ہی جماعت کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نماز باجماعت کا ثواب ملتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے، براہِ کرام ہماری اس سلسلہ میں راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازی کو چاہیے کہ وہ باجماعت نماز اد اکرے اور اسے معمول بنائے، اگر کبھی دیر سے آئے تو اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے اور نمازیوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائے تو نماز باجماعت کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز پڑھ لے۔‘‘ [1] ایک روایت میں ہے کہ نمازیوں میں سے ایک آدمی اس کے ساتھ کھڑا ہوا پھر انہوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ [2] اکیلے آدمی کا نماز باجماعت ادا کرنا اس کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جسے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا پروردگار بکریاں چرانے والے پر تعجب کرتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر رہ کر اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو جو نماز کے لیے اذان دیتا ہے اور اقامت کہتا ہے نیز وہ مجھ سے ڈرتے ہوئے یہ کام کرتا ہے تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا اور جنت میں داخل کر دیا۔‘‘ [3]

 اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص سفر میں ہو تو اذان دے کر اقامت کہہ کر امام کی طرح نماز پڑھے تو اس کے لیے اجر و ثواب ہے، اس روایت کو بنیاد بنا کر اکیلے آدمی کے لیے گنجائش ہے کہ وہ امام کی طرح نماز پڑھ لے لیکن اسے معمول بنانا اچھا نہیں کہ وہ ہر روز جماعت کے بعد آئے اور نماز باجماعت کا اہتمام ’’خود‘‘ ہی کرے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابوداود، الصلوٰۃ: ۵۷۴۔

[2] صحیح ابن خزیمہ،ص:۶۴،ج۳۔

[3] ابوداود، الصلوٰۃ: ۱۲۰۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 138

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ