سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) فوت شدہ نماز کی قضا

  • 19783
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 702

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے والد محترم دو دن تک بے ہوش رہے، اس دوران انہیں کسی چیز کا شعور نہیں تھا، کیا ان پر فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری ہے؟ کتاب و سنت کے مطابق وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص بے ہوش رہا اور اسے کسی چیز کا شعور نہیں تھا تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے، البتہ جن عبادات کا تعلق اس کے مال سے ہے وہ ادا کرنا ہوں گی اور بدنی عبادتیں مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ایسے شخص سے ساقط ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر ایک دن رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا نہیں دی تھی۔ [1]

 البتہ بے ہوش آدمی کے مال سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی، اس کی ادائیگی ضروری ہے، ہمارے نزدیک اگر بے ہوشی، بغیر سبب کے ہو تو بدنی عبادات ساقط ہو جاتی ہیں اور اگر اس کا کوئی سبب ہو مثلاً شراب نوشی یا بھنگ وغیرہ کے استعمال سے بے ہوشی طاری ہو تو اس قسم کی بے ہوشی میں نمازیں ساقط نہیں ہوں گی۔ بلکہ اس دوران فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری ہے، سوئے ہوئے انسان کو بے ہوش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سوئے ہوئے انسان میں ادراک ہوتا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوش انسان میں ادراک نہیں ہوتا کہ اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، سوئے ہوئے انسان کے متعلق ارشاد نبوی ہے: ’’جو شخص نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے تو پڑھ لے۔‘‘ [2]

 اس لیے بے ہوش انسان سے نماز ساقط ہے اور سوئے ہوئے کے ذمے واجب الاداء ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] مصنف عبدالرزاق،ص:۴۷۹،ج۲۔

[2]  صحیح بخاری، المواقیت: ۵۹۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 138

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ