سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) کیا نماز اشراق یا نماز چاشت بدعت ہے؟

  • 19776
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 951

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز اشراق یا نماز چاشت کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ صحابہ کرام نے اسے بدعت قرار دیا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز چاشت وہ نماز ہے جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے اسے نماز اشراق اور صلوٰۃ اوابین بھی کہا جاتا ہے یہ نماز شرعاً مشروع ہے اور بڑی اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی تھی پہلی یہ کہ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا، دوسری چاشت کی دو رکعت ادا کرنا اور تیسری یہ کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔ [1]

 نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کو بایں طور پر اجاگر فرمایا، آپ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک کے لیے صبح صبح تمام جوڑوں کا صدقہ اداکرنا ضروری ہے، ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، اچھی بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، ان تمام صدقات سے نماز چاشت کی دو رکعت کفایت کر جاتی ہیں۔ [2]

 یہ تمام احادیث صلوٰۃ چاشت کی مشروعیت کی واضح دلیل ہیں، اس لیے اسے بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے، البتہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اسے بدعت کہا تھا، ممکن ہے کہ انہیں مشروعیت کی احادیث نہ پہنچی ہوں یا وہ لوگ کسی خاص حیثیت پر ادا کرتے ہوں جسے دیکھ کر آپ نے اسے بدعت قرار دیا ہے، بہرحال نماز چاشت اور اشراق مشروع ہے اور ایک مستحب عمل ہے، ہمیں کوشش کر کے اس کا اہتمام کرنا چاہیے، اس کی کم از کم دو رکعت ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں ادا کی تھیں۔ [3]


[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۸۱۔  

[2]   صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۷۲۰۔

[3]  صحیح بخاری، الصلوٰۃ: ۳۵۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:133

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ