السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا دوران جماعت نمازیوں کو سلام کہنا ضروری ہے؟ جبکہ ایساکرنے سے خشوع متاثر ہوتا ہے ہمارے ہاں کچھ ساتھی جب جماعت کھڑی ہوتی ہے تو باآواز بلند سلام کہتے ہیں کچھ نمازی کہتے ہیں کہ جماعت کھڑی ہو تو سلام نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی اس کا جواب دینا چاہیے قرآن کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران نماز انسان کو ایساکام نہیں کرنا چاہیے جو نماز کا حصہ نہیں اور نہ ہی باہر سے آنے والے کو کوئی ایسا کام کرنے کی اجازت ہے جس سے نمازی حضرات کا خشوع متاثرہو لیکن بعض کام ایسے ہیں جو نماز کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی دوران نماز کیے جا سکتے ہیں کیونکہ شریعت نے ان کی اجازت دی ہے، اس طرح کچھ کام ایسے ہیں کہ باہر سے آنے والا انہیں سر انجام دے سکتا ہے اگرچہ اس سے کسی حد تک نمازی کا خشوع متاثر ہوتا ہے۔ ان میں سلام کا کہنا اور اس کا مخصوص انداز سے جواب دینا بھی ہے، واضح رہے کہ نماز سے متعلقہ احکام کی تکمیل کئی ایک مراحل میں ہوتی ہے۔ چنانچہ پہلے دوران نماز باہر سے آنے والوں کو سلام کہنے اور نمازیوں کو اس کا جواب دینے کی اجازت تھی، لیکن بعد میں اجازت کو ختم کر دیا گیا چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ رہے ہوتے تو ہم آپ کو سلام کہتے اور آپ اس کا دوران نماز جواب بھی دیتے تھے لیکن جب ہم حبشہ کے فرمانروا حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کے پاس سے واپس مدینہ آئے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسب معمول دوران نماز سلام کہا لیکن آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔ میرے دل میں اس سے متعلق طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میں نے اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا تو آپ نے میری طرف اشارہ فرمایا۔ [2]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز سلام کہا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں ہے کہ اگر نہ کہا جائے تو کسی فرض کا تارک قرار پائے گا، اس لیے باہر سے آنے والے کو چاہیے کہ وہ اگر سلام کہنا چاہتا ہے تو باآواز بلند سلام ’’پھینکنے‘‘ کی بجائے نہایت شائستگی سے سلام کہے، نماز میں مصروف انسان کے لیے اس کا جواب کہنا دو طرح سے جائز ہے۔
1 نماز سے فراغت کے بعد زبان سے اس کا جواب دے دے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کہا تو آپ نے فراغت کے بعد اس کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ساتھ وضاحت بھی کر دی۔ [3]
2 دوران نماز اپنے ہاتھ کے اشارہ سے بھی جواب دیا جا سکتا ہے لیکن زبان سے کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد قباء تشریف لے گئے وہاں آپ نے نماز پڑھی تو وہاں مقیم انصاری حضرات دوران نماز آپ کو سلام کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تھے، اس لیے میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سلام کا جواب کیسے دیتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔ [4]
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔[5]
جبکہ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ پھیلا کر وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران نماز اس طرح جواب دیتے تھے۔[6]
دراصل شریعت بعض اوقات کسی انسان کی حسن نیت کے پیش نظر اس کے کسی عمل کو افضل ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف جواز کی حد تک گورا کر لیتی ہے۔ اس لیے ایسے اعمال کو مسنون ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، جیسا کہ آدمی نے دوران جماعت رکوع سے اٹھ کر باآواز بلند ’’کلمات تحمید‘‘ ادا کیے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اخلاص کے پیش نظر اس کی تحسین فرمائی لیکن خود اس پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی دوسروں کو یہ عمل بجا لانے کی تلقین فرمائی، دوران جماعت سلام کہنا بھی اسی قبیل سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کم از کم تین مرتبہ دورانِ جماعت نماز میں شامل ہوئے ہیں لیکن آپ کا نمازیوں کو سلام کہنا کسی روایت سے ثابت نہیں ہے، اگر یہ افضل عمل ہوتا تو آپ اسے ضرور بجا لاتے، اسی طرح اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے جواز کی حد تک برقرار رکھا ہے۔ پھر آپ کے جواب دینے کی جو دو صورتیں ہیں اس سے بھی اس کا افضل ہونا ثابت نہیں صرف جواز ثابت ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، المساجد: ۱۲۰۱۔
[2] صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۲۰۵۔
[3] ابوداود، الصلوٰۃ:۹۲۴۔
[4] ابن ماجہ، اقامۃ الصلوٰت: ۱۰۱۷۔
[5] جامع الترمذی، الصلوٰۃ:۳۶۸۔
[6] ابوداود، الصلوٰۃ: ۹۲۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب