سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) تحیۃ المسجد میں دعائے استخارہ پڑھنا

  • 19771
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 527

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ ہر روز نماز استخارہ پڑھنے کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟ نیز تحیۃ المسجد اور صبح کی سنتوں میں دعائے ستخارہ پڑھی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز استخارہ اس وقت مشروع ہے کہ جب انسان کوئی کام کرنا چاہے لیکن یہ واضح نہ ہو کہ یہ کام کرنا بہتر ہے یا اس کے نہ کرنے میں بھلائی ہے، ایسے حالات میں دعائے استخارہ کی جائے۔ جب یہ بات بالکل واضح ہو کہ اس کام کا کرنا یا نہ کرنا بہتر ہے تو پھر استخارہ کی ضرورت نہیں، اگر کسی انسان کو ہر روز کسی کام کے بارے میں یہ مشکل درپیش ہو تو ہر روز استخارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے بغیر ہر روز استخارہ کرنے کو معمول بنانا سنت سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے کام سر انجام دیتے اور انہیں باضابطہ پروگرام کے تحت عمل میں لاتے لیکن ایسے کاموں کے لیے استخارہ کا عمل آپ سے ثابت نہیں ہے۔

 واضح رہے کہ جو کام انسان کے ذمے ہیں، ان کے لیے استخارہ مشروع نہیں، مثلاً انسان اگر نماز پڑھنے یا زکوٰۃ دینے کا ارادہ کرے تو استخارہ کی کوئی ضرورت نہیں، اسی طرح انسان کے عام معمولات کے لیے بھی استخارہ فائدہ مند نہیں ہے جیسے کھانے، پینے یا سونے کا ارادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح بیٹے یا بیٹی کی شادی کے لیے استخارہ نہیں کرنا چاہیے البتہ ان کے انتخاب کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے، نیزماضی میں ہونے والے واقعات مثلاً چوری وغیرہ کی برآمدگی کے لیے استخارہ کرنا بھی درست نہیں ہے، ہمارے نزدیک ہر روز نماز استخارہ پڑھنے کا معمول بنانا محل نظر ہے، ہاں کسی معاملہ میں واقعی ضرورت ہے تو استخارہ کیا جا سکتا ہے۔

تحیۃ المسجد یا صبح کی سنتوں کے بعد استخارہ کرنا بھی درست نہیں کیونکہ نماز استخارہ ایک مستقل نماز ہے جس کے لیے نیت کرنا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ’’جب کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھے۔‘‘ [1]

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان دو رکعت پڑھنے کا مقصد استخارہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہونا چاہیے، اس بنا پر ہمارا رجحان ہے کہ استخارہ کے لیے دو مستقل رکعات پڑھی جائیں، البتہ اگر کوئی انسان تحیۃ المسجد یا فجر کی سنت ادا کرنے سے پہلے استخارہ کی نیت کرے تو اس سے مسئلہ کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے اگرچہ بہتر نہیں ہے، واضح رہے کہ دعائے استخارہ دو رکعت سے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح بخاری، الدعوات:۳۸۲۔   

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 128

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ