السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا دوران نماز کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے؟ اس کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت وارد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث میں صف بندی کا معیار یہ ہے کہ صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے ٹخنے ایک دوسرے کے برابر ہوں صرف انگلیوں کے کناروں کا ملنا کافی نہیں ہے، ٹخنے ملانے سے صفوں میں برابری بھی آتی ہے اور درمیان میں آنے والا خلا بھی پر ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابرکرو، خلا کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ، شیطان کے لیے صف میں خالی جگہیں نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا اللہ اسے ملائے گا اور جس نے صف کو کاٹا اللہ اس سے تعلق کاٹ لے گا۔ [1]
ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ مل جاؤ اور برابر ہو جاؤ۔‘‘ [2]
نمازیوں کے پاؤں مختلف ہوتے ہیں، کسی کا پاؤں لمبا ہوتا ہے اور کسی کا چھوٹا ہوتا ہے لہٰذا صفوں کی درستی اور برابری ٹخنوں ہی سے ہو سکتی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل حدیث میں آیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ٹخنوں کے ساتھ ٹخنے ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہم میں سے ایک آدمی دوسرے کے ٹخنے کے ساتھ اپنا ٹخنا ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ [3]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا کندھا دوسرے کے کندھے کے ساتھ اپنا قدم دوسرے کے قدم کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ [4]
ہر نمازی کو چاہیے کہ وہ قیام اور رکوع کی حالت میں اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ لگا دے تاکہ صفیں سیدھی اور برابر ہو جائیں اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ساری نماز میں ایک دوسرے کے ٹخنے آپس میں چمٹے رہیں، ہمارے ہاں اس سلسلہ میں کچھ غلو بھی کیا جاتا ہے کہ ٹخنے سے ٹخنا ملانے کے لیے حد سے زیادہ پاؤں کھول دئیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے پاؤں پھیل جاتے ہیں کہ ساتھی کے کندھوں کے درمیان بہت فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے، ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ صف بندی میں مقصود یہ ہے کہ نمازیوں کے کندھے اور ٹخنے برابر ہوں اس طرح یہ بھی تفریط کی ایک صورت ہے کہ ہم دوران نماز صرف پاؤں کی انگلیاں ملاتے ہیں اور ٹخنوں کو ملانے کی زحمت نہیں کرتے، صف بندی کا تقاضا یہ ہے کہ صفیں سیدھی اور برابر ہوں اور صفیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوں، کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا ہوا ہو، اس کے لیے اپنے وجود کے مطابق پاؤں کھولنے چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] داود، الصلوٰۃ:۶۶۶۔
[2] مسند امام احمد،ص۲۶۸،ج۳۔
[3] صحیح بخاری، الاذان قبل حدیث: ۷۲۵۔
[4] صحیح بخاری الاذان:۷۲۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب