السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرتب کردہ دائمی ٹائم ٹیبل کے مطابق اذان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض مساجد میں مذکورہ ٹائم ٹیبل سے دس، پندرہ منت پہلے اذان فجر دی جاتی ہے، قبل از وقت اذان فجر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کتاب و سنت کے مطابق راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کی بروقت ادائیگی ضروری ہے، چونکہ اذان، نماز کے وقت کی ایک علامت ہے اس لیے اذان وقت سے پہلے دینا درست نہیں ہے۔ البتہ فجر کی دو اذانیں مشروع ہیں ایک اذان سحر جو طلوع فجر سے پہلے دی جاتی ہے اس کے بعد روزے دار کے لیے کھانا پینا تو جائز ہے لیکن نماز فجر پڑھنا جائز نہیں ہے اور دوسری اذان نماز فجر کی ہے اس کے بعد کھانا پینا منع ہے اور نماز فجر ادا کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر مؤذن اذان سحر، اذان نماز فجر سے دس پندرہ منٹ پہلے دیتا ہے تو جائز ہے لیکن اگر وہ نماز فجر کے وقت سے پہلے صلوٰۃ صبح کی اذان کہتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے طلوع فجر سے پہلے اذان کہہ دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جاؤ اور اعلان کرو خبردار! بندہ سو گیا تھا، خبردار بندہ سو گیا تھا، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جا کر اعلان کیا خبردار! بندہ سو گیا تھا۔ [1]
اس حدیث کی بناء پر نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان دینا صحیح نہیں ہے ہاں اگر غلطی سے تھوڑا فرق ہو تو اذان دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر وقفہ بہت زیادہ ہو تو اذان دوبارہ کہی جائے تو قبل از وقت دی ہوئی اذان کے متعلق اعلان کر دیا جائے کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے، بعض اہل علم کا موقف ہے کہ صبح کی اذان فجر کاذب میں کہی جائے تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جا سکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے، لیکن یہ مؤقف محل نظر ہے اور طریقہ نبوی کے خلاف ہے۔ بہرحال ہمارا رجحان یہ ہے کہ صبح کی اذان وقت سے پہلے کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ کچھ ضرورت مند حضرات قبل از وقت کہی گئی اذان سن کر نماز پڑھ لیں گے جو قبل از وقت ہو گی، لہٰذا نماز فجر کے لیے صبح کی اذان فجر طلوع ہونے پر ہی دی جائے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود الصلوٰۃ: ۵۳۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب