سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) نماز قصر کی مسافت اور کاروبار کے لیے باہر رہنے والوں کی نماز قصر ہوگی یا مکمل ؟

  • 19762
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 840

سوال

(113) نماز قصر کی مسافت اور کاروبار کے لیے باہر رہنے والوں کی نماز قصر ہوگی یا مکمل ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں سوات کا رہنے والا ہوں اور میرا کاروبار سوات سے ۶۵ کلومیٹر دور ایک شہر میں ہے، میں روزانہ وہاں آتا جاتا ہوں اور نماز قصر پڑھتا ہوں، کیا میرا یہ عمل قرآن وحدیث کے مطابق ہے؟ جواب میں کسی حدیث کا حوالہ ضرور دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز قصر کے لیے کم از کم مقدار سفر کے متعلق علماء سلف میں خاصا اختلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملتی البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر و حضر میں ایک خادم خاص کی حیثیت سے رہے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کہ منزل مقصود اگر کم از کم نو میل کی مسافت پر ہو تو نماز قصر کی جا سکتی ہے چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید ہنائی نے نماز قصر کے لیے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرلانگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔ (روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد ایک راوی شعبہ کو ہوا ہے)۔ [1]

 واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے تین فرسخ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ اس میں تین میل بھی آجاتے ہیں، ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ منزل مقصود اگر کم از کم نو میل کی مسافت پر واقع ہے تو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جا سکتی ہے۔

 صورت مسؤلہ میں سائل کا کاروبار اس کی رہائش سے ۶۵ کلومیٹر دور ایک شہر میں واضع ہے لہٰذا اسے دورانِ سفر قصر کی اجازت ہے، وہاں پہنچ کر بھی اگر شرعی مسافت سے زیادہ دنوں تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز قصر کی جا سکتی ہے، سائل تو روزانہ وہاں سے اپنے گھر واپس آجاتا ہے، اس بناء پر اسے دوران سفر اور جائے کاروبار پر نماز قصر کرنے کی اجازت ہے اور اس کا عمل قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین:۶۹۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 122

محدث فتویٰ

تبصرے