سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(518) مکان کا کرایہ جائز ہے تو نقدی کا کیوں نہیں...؟

  • 1976
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2313

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) اگر مکان کا کرایہ لیا جا سکتا ہے تو سرمایہ (نقدی) کا کرایہ کیوں نہیں لیا جا سکتا ؟

(2) افراط زر (روپے کی قیمت میں کمی) کی وجہ سے قرض دینے والے کو نقصان ہوتا ہے مثلاً اگر زید بکر کو مبلغ -/۱۰۰۰ روپے ایک سال کے لیے قرض دے اور ایک سال میں افراط زر ۲۰% بڑھ جائے تو اب سابقہ -/۱۰۰۰ روپے کی قوت خرید اب صرف -/۸۰۰ روپے رہ جائے گی جس کی وجہ سے زید کو -/۲۰۰ روپے کا نقصان ہو گا جبکہ قرآن مجید میں ہے : ﴿لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ﴾

(3) اگر بینک کسی نفع ونقصان میں شرکت کی بنا پر قرض دے اور یہ شرط رکھے کہ نقصان ہونے کی صورت میں وہ اپنا باقی سرمایہ واپس لے گا تو کیا جائز ہے ؟ اس کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ قرض لینے والے کو فائدہ ہو تب بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے فائدہ نہیں ہوا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) اس لیے کہ مکان کا کرایہ شرعاً درست اور سرمایہ یعنی نقدی کا کرایہ شرعاً درست نہیں ہے دیکھئے کچھ لوگوں نے کہا ﴿إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا﴾ ’’سوداگری بھی سود کی طرح ہے‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہی جواب د یا :

﴿وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوۡعِظَةٞ مِّن رَّبِّهِۦ﴾--بقرة275

’’حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری کو اورحرام کیا ہےسود کو پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے‘‘

(2) روپے کی قیمت میں کمی کوئی لازمی وضروری امر نہیں کبھی اس کی قیمت میں اضافہ بھی تو ہو سکتا ہے سعودی عرب کو ہی لے لیجئے اس کے سکہ کی قیمت آج سے کوئی تیس سال قبل کیا تھی اور آج کیا ہے ؟ پھر افراط زر کی وجہ سے جو ایک ہزار زید نے بکر کو قرض دیا ہے صرف اس ایک ہزار میں ہی کمی نہیں آئی بلکہ جو زید نے اپنے پاس پیسے رکھے ہوئے ہیں ان میں بھی تو کمی آ گئی ہے تو جو ایک ہزار اس نے بکر کو دیا ہے اگر وہ اس کو نہ دیتا اپنے پاس ہی رکھتا تو بھی اس میں کمی آ جانا تھی ۔

(3) مضاربت میں اعتماد مضارب کی امانت ، دیانت اور ثقاہت پر ہوتا ہے اس شرط میں یہ خدشہ ہے کہ مضارب خسارہ ونقصان کی صورت میں بھی ربح ونفع ہی ظاہر کرے اور رب المال کے پیسے اپنے پاس رکھنے کے لیے یہ بوجھ اپنے سر لیتا جائے تو معاملہ آ جا کر ربا تک ہی پہنچ جائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 357

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ