سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) بے ہوشی کی نماز

  • 19759
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2105

سوال

(110) بے ہوشی کی نماز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی آدمی ہسپتال میں مسلسل دو دن بے ہوش رہا تو کیا ہوش آنے کے بعد اسے فوت شدہ نمازیں پڑھنا ہوں گی؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شعور گم ہونے کی صورت میں انسان کے ذمہ مالی حقوق ساقط نہیں ہوتے لیکن بدنی عبادات مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جاتے ہیں البتہ ہوش آنے کے بعد رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہو گی لیکن نمازوں کی ادائیگی اس کے ذمے نہیں ہے، کیونکہ یہ سوئے ہوئے شخص کی طرح نہیں ہے کہ وہ جب بیدار ہو تو فوت شدہ نمازوں کو ادا کرے۔ اس لیے کہ سوئے شخص میں ادراک ہوتا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوشی میں مبتلا انسان کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، بے ہوش انسان کی فوت شدہ نمازوں کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں:

1) جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ بے ہوشی کے دوران رہ جانے والی نمازوں کی قضا اس کے ذمے نہیں ہے چنانچہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ پر ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا نہیں دی تھی۔[1]

2) کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ بے ہوش آدمی اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کرنے کا پابند ہے وہ اس سلسلہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرتے ہیں کہ ان پر ایک دن اور ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے ہوش میں آنے کے بعد فوت ہونے والی نمازوں کی قضا دی تھی۔ [2]

 ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا مؤقف صحیح ہے جس کی ہم نے پہلے ہی وضاحت کر دی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] مصنف عبدالرزاق،ص:۹۷۴،ج۲

[2]  مصنف عبدالرزاق،ص:۴۷۹،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 120

محدث فتویٰ

تبصرے