سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا

  • 19758
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1451

سوال

(109) نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی حدیث میں ہے کہ عورتیں نماز میں اپنے سینے پر ہاتھ باندھیں جب کہ مرد حضرات زیر ناف اپنے ہاتھ رکھیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران نماز سینے پر ہاتھ باندھے جائیں، اس میں مرد و عورت کے متعلق کوئی تفریق نہیں ہے، ہاتھوں کو چھوڑنا یا زیر ناف ہاتھ باندھنا یا مرد و عورت میں تفریق کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ دوران نماز اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں کلائی پر رکھیں۔‘‘[1]

 واضح رہے کہ جب بائیں کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آجاتے ہیں چنانچہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے کے اوپر رکھا۔ [2]

 اس حدیث میں قدرے ضعف ہے لیکن دیگر احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے، لہٰذا دوران نماز اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھنا چاہیے، اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ ہاتھوں کو بائیں جانب اپنے دل پر باندھتے ہیں، یہ عمل بھی بے اصل بلکہ بدعت ہے، زیر ناف ہاتھ باندھنے کے متعلق ایک اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بہت قوی ہے، ہاتھ باندھنے کے متعلق مرد اور عورت میں فرق کرنا بھی خود ساختہ ہے کیونکہ اصل یہ ہے کہ احکام میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، البتہ کتاب و سنت میں اگر تفریق کی کوئی دلیل موجود ہو تو الگ بات ہے، لیکن اس سلسلہ میں ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی جس سے پتہ چلے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے سے مرد اور عورت میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، الاذان: ۷۴۰۔

[2] صحیح ابن خزیمہ،ص: ج۱،ص: ۲۴۳۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 119

محدث فتویٰ

تبصرے