السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو دوہری اذان کی تعلیم دی اور اس حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ جب صبح کی پہلی اذان ہو تو اس وقت ’’الصلوٰة خیر من النوم، الصلوٰة خیر من النوم‘‘ کہا جائے، اس روایت کے مطابق ’’الصلوٰة خیر من النوم‘‘ کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہنے چاہئیں جب کہ ہماری تمام مساجد میں ان الفاظ کو دوسری اذان میں کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ہمیں صحیح مؤقف سے آگاہ کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ سوال میں مذکورہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں مروی ہے۔[1] اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں، دوسری اذان میں انہیں نہیں کہنا چاہیے، لیکن یہ استدلال کئی اعتبار سے محل نظر ہے۔
اولاً: حدیث میں ا ذان اول، اقامت کے اعتبار سے ہے کیونکہ شریعت میں تکبیر کو بھی اذان کہا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہرد واذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ [2]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے میں کم از کم دو رکعت پڑھنا مشروع ہے، اس میں اقامت کو بھی اذان سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بناء پر اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر کے بعد کہی جاتی ہے اور نماز فجر کے وقت کی علامت ہے، اس سے مراد اذانِ سحری نہیں جو سوتے ہوؤں کو بیدار کرنے یا تہجد پڑھنے والوں کو واپس آنے کے لیے کہی جاتی ہے۔
ثانیاً: مسجد نبوی میں دو مؤذن تھے، جن کی صراحت کتب حدیث میں موجود ہے، ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ لیکن مکہ مکرمہ میں صرف ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ہی مؤذن تھے اور وہ صبح کی اذان دیتے تھے جو نماز فجر کے لیے ہوتی تھی، اور اسی اذان میں وہ الصلوٰۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔
ثالثاً: سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب مؤذن فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم دو مرتبہ کہے۔ [3]
جب صحابی کسی حدیث کو سنت کے حوالے سے بیان کرتا ہے تو وہ حدیث مرفوع ہوتی ہے، اس مؤقف کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک صبح سخت ٹھنڈک میں اپنی بیوی کے ساتھ اس کی چادر میں لیٹا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز صبح کے لیے اذان دینا شروع کر دی۔ جب میں نے اذان سنی تو دل میں کہا کاش! مؤذن یہ کلمات کہہ دے’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں‘‘ وہ فرماتے ہیں کہ جب مؤذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کہا تو اس کے بعد یہ الفاظ بھی کہے اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں۔[4]
اس حدیث میں صراحت ہے کہ مؤذن نے الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ نماز فجر کی اذان میں کہے تھے اگر الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ طلوع فجر سے پہلے کی اذان میں ہوتے تو حضرت نعیم رضی اللہ عنہ کو یہ تمنا کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ کاش! مؤذن یہ الفاظ کہہ دے ’’اور جو بیٹھا رہے اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں نہیں جو طلوع فجر سے پہلے کہی جاتی ہے بلکہ فجر کی دوسری اذان میں کہے جائیں جو طلوع فجر کے بعد دی جاتی ہے اور جو نماز فجر کے وقت کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الصلوٰۃ:۵۰۱، نسائی والاذان:۶۳۴۔
[2] بخاری، الاذان:۶۲۴۔
[3] سنن دارقطنی، ص:۲۴۳،ج۱۔
[4] بیہقی،ص:۲۴۳،ج۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب