السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم چند ساتھیوں کو اپنے امام مسجد کے ہمراہ ایک قریبی گاؤں جانے کا اتفاق ہو اجو کہ ہمارے گاؤں سے تقریباً دو میل کی مسافت پر ہے، ہمارے امام صاحب نے ہمیں نماز ظہر پڑھاتے وقت کہا کہ میں مسافر کی نماز قصر پڑھوں گا، آپ پوری پڑھ لیں، ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ میرا اصلی وطن چیچہ وطنی ہے جو یہاں سے تقریباً دو سو میل ہے، لہٰذا میں مسافر ہوں حالانکہ ہمارے امام کم و بیش ایک سال سے ہمارے ہاں مقیم ہیں ، اور ہمیں پوری نماز پڑھاتے ہیں، کیا امام صاحب کا نماز قصر کے متعلق استدلال صحیح ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقہاء امت نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1) وطن اصلی: وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہو، اور اپنے والدین یا اہل و عیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔
2) وطن اقامت: وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لیے تردد کے بغیر رہائش رکھے ہو۔
احکام کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، سوال میں ذکر کردہ امام مسجد ایک سال سے کسی گاؤں میں بغرض امامت و خطابت مقیم ہیں اور وہاں نماز پوری پڑھاتے ہیں۔ مذکورہ گاؤں ان کے لیے وطن اقامت کی حیثیت رکھتا ہے، ایسے حالات میں اگر وہ دو یا تین میل کی مسافت پر واقع کسی گاؤں جاتا ہے تو اسے پوری نماز پڑھنا ہو گی، واضح رہے کہ شرعی مسافت سے مراد یہ ہے کہ دوران سفر، قیام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچنے اور وہاں سے روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا ارادہ یقینی ہو تو نماز قصر ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ شرعی مسافت ہے اگر اس سے زیادہ دنوں کا قیام مقصود ہو تو نماز پوری پڑھنا ہو گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھویں ذوالحجہ صبح کی نماز ادا کر کے منیٰ روانہ ہوئے یعنی آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ، چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام کیا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کو مناسک حج ادا کرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق تین دن اور تین رات کے قیام والا ایک مسافر انسان مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے اس کی مسافرانہ حیثیت برقرار رہتی ہے، اس سے زیادہ دنوں کا قیام اگر یقینی طور پر ہے تو یہ اس کی مسافرانہ حیثیت کے منافی ہے اور ایسے حالات میں اسے پوری نماز پڑھنا ہو گی، ہاں اگر قیام کے دوران تردد اور بے یقینی کی کیفیت ہے تو ایسے حالات میں وہ جتنے دن بھی قیام کرے اسے نماز قصر ادا کرنے کی اجازت ہے۔ مذکورہ امام مسجد بھی شاید اسی قسم کی غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوں کہ مجھے نامعلوم کب جماعت والے یہاں سے فارغ کر دیں لیکن سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پورے اذعان و یقین سے وہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کو پوری نماز پڑھاتے ہیں، بہرحال ان کا کسی قریبی گاؤں میں جا کر نماز قصر پڑھنا محل نظر ہے، انہیں وہاں بھی پوری نماز پڑھنی چاہیے تھی۔ (واللہ اعلم)
[1] مسلم، الحج:۳۲۹۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب