سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) سلام پھیرتے وقت کندھے کو دیکھنا

  • 19740
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 1273

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ سلام پھیرتے وقت دائیں بائیں کندھے کو دیکھتے ہیں، کیا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کو سلام کے ساتھ ہی ختم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کے ساتھ نماز ختم کرتے تھے۔ [1]

 اس بناء پر ضروری ہے کہ نماز کا اختتام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق کیا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں دونوں جانب کچھ چہرے پھیرتے ہوئے سلام کہتے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں بائیں سلام کہتے حتی کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی۔ [2]

 حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو میں آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ [3]

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی سلام پھیرے تو اپنے بھائی کو دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘ [4]

 اپنے دائیں بائیں ساتھی کو دیکھ کر اسے سلام کرے جیسا کہ صراحت کے ساتھ ایک حدیث میں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر اپنے دائیں بائیں جانب بیٹھے ہوئے بھائی پر سلام کہے۔ [5]

 اس حدیث میں اشارہ ہے کہ نمازی سلام پھیرتے وقت جماعت میں موجود حاضرین کی نیت کر لے بلکہ ایک روایت میں اس امر کا حکم بھی مروی ہے جیسا کہ حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ دوران نماز ہم اپنے ائمہ کرام اور جماعت میں موجود حاضرین کو سلام کہیں۔ [6]

 مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سلام پھیرتے وقت اپنے کندھوں کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ دائیں بائیں بیٹھنے اپنے ساتھی کو دیکھے اور اسے سلام کی نیت کرے۔ (واللہ اعلم)


[1]  صحیح مسلم، الصلوٰۃ:۴۹۸۔

[2]  مسند امام احمد،ص:۴۴۴،ج۱۔

[3] صحیح مسلم، المساجد:۱۳۱۵۔

[4]صحیح مسلم ، الصلوٰۃ:۹۷۱۔

[5] صحیح مسلم، الصلوٰۃ:۹۷۰۔   

[6] ابوداود، الصلوٰۃ:۱۰۰۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ