السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جلسہ استراحت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بعض اہل علم نے اس کی عدم مشروعیت پر صحیح بخاری کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے کہ مسئی الصلوٰۃ کی حدیث کے آخر میں ہے ’’تو اپنے سجدہ سے سر اٹھاؤحتیٰ کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘(صحیح بخاری،الاستیذان:625)اس روایت کی وضاحت کریں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری کے نزدیک جلسۂ استراحت مشروع ہے چنانچہ انہوں نے ایک عنوان یوں قائم کیا ہے ’’جو شخص دوران نماز طاق رکعت پڑھتے وقت کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کھڑا ہو۔‘‘ پھر آپ نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز کی طاق رکعت پڑھتے تو کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے۔ [1]
واضح ہو کہ جلسۂ استراحت پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعت کے لیے اور تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے دوسرے سجدے کے بعد کچھ دیر اطمینان سے بیٹھنے کو کہتے ہیں، یہ جلسۂ استراحت مسنون و مشروع ہے جیساکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ روایت سے ثابت ہوتا ہے، سوال میں مسئی الصلوٰۃ کی حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے حالانکہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’پھر رکوع کر حتیٰ کہ تمہیں رکوع میں اطمینان ہو جائے، پھر اپنا سر اٹھا حتیٰ کہ سیدھا کھڑا ہو جائے، اس کے بعد سجدہ کر حتیٰ کہ تجھے سجدہ میں اطمینان ہو جائے پھر سجدہ سے سر اٹھا حتیٰ کہ تو اطمینان سے بیٹھ جائے پھر سجدہ کر حتیٰ کہ تجھے سجدہ میں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سجدہ سے سر اٹھا حتیٰ کہ تو اطمینان سے بیٹھ جائے۔‘‘ [2]
اسی روایت کے آخر میں ہے ابو اسامہ نے کہا: ’’تو اپنے سجدہ سے سر اٹھا حتی کہ سیدھا کھڑا ہو جائے‘‘ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پوری سند کے ساتھ اس حدیث کو دوسرے مقام پر بیان کیا ہے۔[3]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس حدیث کی حیثیت بیان کرنا ہے کہ راوی حدیث عبید اللہ بن عمر کے تین شاگرد ہیں۔ 1) عبداللہ بن نمیر2)یحییٰ علیہ السلام3) ابو اسامہ۔
پہلے دو شاگرد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے سجدہ سے سر اٹھا حتیٰ کہ تو اطمینان سے بیٹھ جائے۔ البتہ ابو اسامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اپنے سجدہ سے سر اٹھا حتیٰ کہ سیدھا کھڑا ہو جائے، جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کی مخالفت کی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اس کے یہ الفاظ مخالفت کی وجہ سے شاذ ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو بیان کرنے کے فوراً بعد یحییٰ کی روایت کو بیان کیاہے جس کے الفاظ ہیں کہ تو سجدہ سے سر اٹھا حتیٰ کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔ [4]
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جلسہ استراحت کی مشروعیت کے قائل ہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اور جس روایت سے اس کی عدم مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے وہ شاذ ہے، اس روایت کے علاوہ کچھ دوسری روایات بھی پیش کی جاتی ہیں جو سند کے اعتبار سے محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ لہٰذا ان کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الاذان:۸۲۳۔
[2] صحیح بخاری، الاستیذان:۶۲۵۱۔
[3] صحیح بخاری، الایمان والنذور: ۶۶۶۷۔
[4] صحیح بخاری، الاستیذان: ۶۲۵۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب