سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) بغیر وضو اذان دینا

  • 19727
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2627

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اذان دینے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے؟ اگر وضو کے بغیر اذان کہہ دی جائے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اذان دینا ، اللہ کا ذکر کرنا ہے اس لیے بہتر ہے کہ اذان دینے کے لیے وضو کر لیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ آپ اللہ کا ذکر باوضو کرتے تھے جیسا کہ حضرت مہاجربن قنفذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا جب کہ آپ پیشاب کر رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جب تک وضو نہ کر لیا مجھے سلام کا جواب نہ دیا۔پھر آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اللہ کا ذکر طہارت کے بغیر کروں۔[1]

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تیمم کرنے کے بعد سلام کا جواب دیا۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سلام کا جواب وضو اور تیمم کر کے دیتے تھے چونکہ اذان بھی اللہ کا ذکر ہے اس لیے بہتر ہے کہ وضو کر کے کہی جائے لیکن وضو کو اذان کے لیے شرط قرار دینا محل نظر ہے۔ ایسی کوئی روایت کتب حدیث میں مروی نہیں ہے جس کے پیش نظر اذان کے لیےبا وضو ہونے کو ضروری قراردیا جائے۔البتہ ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اذان صرف باوضو شخص ہی دے ۔‘‘[2]

لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے قابل حجت نہیں ہے۔[3]

بہر حال اذان اللہ کا ذکر ہے اس بناء پر بہتر ہے کہ مؤذن اسے باوضو ہو کر ادا کرے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے وضو کے بغیر اذان دی جائے تو اس میں چنداں حرج نہیں ہے(واللہ اعلم)


[1] ۔ابو داؤد، الطہارۃ17۔

[2] ۔بیہقی ،ص:397۔ج1۔

[3] ۔ارواءالغلیل ،ص:240،ج1۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:99

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ