السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں اذان دینے کی اجرت لینا ممنوع ہے پھر مؤذن حضرات تنخواہ کیوں لیتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ حدیث میں ہے کہ مؤذن کو اذان دینے پر اجرت نہیں لینی چاہیے چنانچہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایسے شخص کو مؤذن بناؤ جو اذان پر اجرت نہ لے۔‘‘[1]
لیکن حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جب اپنی اذان مکمل کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی۔[2]
اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرت حرام اس وقت ہے جب مشروط ہو لیکن مانگے بغیر کچھ دیا جائے تو جائز ہے لیکن ہمارے ہاں مؤذن صرف اذان دینے کی اجرت نہیں لیتے بلکہ مسجد کی نگرانی اس کی صفائی اور دیگر کام بھی اس کے ذمے ہوتے ہیں گویا وہ چوبیس گھنٹے کا پابند ہے اذان دینے کی تنخواہ نہیں لیتا بلکہ وقت دینے اور چوبیس گھنٹے پابند رہنے کی تنخواہ لیتا ہے،ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسا مؤذن مقرر کیا جائے جو اذان کہنے پر اجرت نہ لیتا ہو، جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے لیکن اگر ایسا مؤذن میسر نہ ہوتا پھر اجرت پر مؤذن رکھنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔پھر ہمارے ہاں مؤذن صرف اذان ہی نہیں دیتے بلکہ اور بہت سے کام سر انجام دیتے ہیں بہر حال اوقات نماز سے آگا ہی کے لیے مؤذن کی تقرری انتہائی ضروری ہے اگر مؤذن کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے تو اس کے اجرت لینے پر کوئی حرج نہیں ہے، اگر صاحب حیثیت ہے تو اذان دینے پر اجرت لینا درست نہیں ہے (واللہ اعلم)
[1] ۔ابو داؤدالصلوٰۃ:631۔
[2] مسند امام احمد،ص:409،ج3۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب