سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) نماز چاشت اور نماز اشراق میں فرق اور رکعات وغیرہ

  • 19716
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5433

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز چاشت اور نماز اشراق میں کیا فرق ہے اور اس کی کتنی رکعات ہیں اور انہیں کس وقت ادا کرنا چاہیے؟کتاب وسنت کی روشنی میں راہنمائی کریں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو نماز طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیان اداکی جائے اسے صلوۃضحیٰ کہتے ہیں ہم اسے نماز چاشت یا شراق بھی کہتے ہیں اس کا یک نام صلوٰۃ الاوابین بھی ہے اس کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جاسکتا ہے۔،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے صبح صبح تمام جوڑوں کا صدقہ لازم ہے، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمد اللہ کہنا بھی صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا بھی صدقہ ہے، نیز اچھی بات کا حکم دینا اور برے کام سے منع کرنا بھی صدقہ ہے، ان تمام صدقات سے نماز چاشت کی دو رکعات کفایت کر جاتی ہیں۔‘‘[1]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ میرے خلیل حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی۔ہر ماہ تین دنوں کے روزے رکھو، چاشت کی دو رکعت پڑھو اور سونے سے قبل نماز وتر ادا کرو۔[2]

اس نماز کی کم ازکم دورکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے چار رکعت پڑھنا مروی ہے۔[3]

اور حضرت اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چاشت کی آٹھ رکعت ادا کی تھیں۔[4]

ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے چاشت کی بارہ رکعت ادا کیں، اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محل تیار کیا جاتا ہے۔[5]

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی صراحت کی ہے۔[6]

بہر حال اس کے نام کئی ایک ہیں ،صلوٰۃالوابین احادیث میں آیا ہے ہم اس نماز کو چاشت اور نماز اشراق کہتے ہیں احادیث میں اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اگر ہمت ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہیے جن حضرات نے اسے بدعت قراردیا ہے۔ان کا مؤقف درج بالا احادیث کے پیش نظر مرجوح ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ۔صحیح مسلم ،صلوٰۃالمسافرین:720۔

[2] ۔صحیح بخاری،الصوم:1981۔

[3] ۔صحیح مسلم ،صلوٰۃالمسافرین:719۔

[4] ۔صحیح بخاری،الصلوٰۃ:357۔

[5] ۔ترمذی الصلوۃ:472۔

[6] ۔ضعیف ترمذی حدیث نمبر70۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:91

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ