السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی حاملہ تھی اسے چار ماہ کے بعد خون آنا شروع ہو گیا۔ اس خون کا شرعاً کیا حکم ہے آیا یہ خون نماز کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے یا نہیں؟کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولادت کے بعد آنے والے خون کو نفاس کہا جاتا ہے جو خون حیض کی طرح نجس ہے۔ ان ایام میں نماز روزہ ادا نہیں ہوتا بلکہ ان دنوں نمازیں معاف ہوتی ہیں البتہ روزوں کی قضا ضروری ہے۔ دوران حمل جاری ہونے والا خون نفاس نہیں۔ اسی طرح چار ماہ سے قبل اگر اسقاط ہو جائے تو وہ نفاس شمار ہوگا۔ ایسی عورت پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے یعنی وہ ان دنوں کی نماز روزہ کا اہتمام کرے گی نیز اسے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہوگا ۔ایک وضو سے متعدد نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب