السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تعلیم الاسلام نامی کتاب میں لکھا ہے کہ اڑتالیس میل سے کم مسافت پر نماز قصر پڑھنا جائز نہیں ہے جبکہ اہل حدیث حضرات نو میل مسافت پر قصر لینے کے قائل ہیں۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس موقف کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے اہل مکہ !چار برید یعنی اڑتالیس میل سے کم مسافت پر قصر نہ کرواور چار برید مکہ سے عسفان تک کا فاصلہ ہے۔‘‘[1]
اس حدیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ اڑتالیس میل سے کم مسافت پر قصر کرنا جائز نہیں ہے لیکن مذکورہ حدیث کو محققین نے مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول قرار دیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔[2]
نیز اس کی سند میں ایک راوی عبد الوہاب بن مجاہد کو متروک قراردیا گیا ہے۔[3]
اس بناء پر یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر کسی نے کم ازکم نومیل کی مسافت پر کہیں جانا ہوتو اپنے شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل کر نماز قصر ادا کر سکتا ہےجیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین میل یا تین فرسخ سفر کے لیے نکلتےتودورکعت نماز ادا کرتے ۔[4]
اس روایت میں راوی حدیث شعبہ کو شک ہوا ہے تاہم علماء نے تین فرسخ والی روایت کو احوط قراردیا ہے اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہےاس طرح تین فرسخ نو میل کے ہوں گے اس کی مزید وضاحت دوسری روایت میں ہے کہ راوی حدیث حضرت یحییٰ بن یزید ہنائی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کتنی مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے؟تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ سفر کے لیے نکلتے تو دورکعت نماز پڑھتے تھے۔[5]
اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سائل کو بطور جواب یہ حوالہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مسافت پر قصر کرتے تھے بہر حال اس سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر منزل مقصود نومیل [6]حجازی یا اس سے زائد مسافت پر ہے تو مسافر اپنے شہر یا گاؤں کی حدود تجاوز کرنے کے بعد نماز قصر پڑھ سکتا ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔بیہقی ،ص:137۔
[2] ۔بلوغ المرام حدیث نمبر 249۔
[3] ۔میزان الاعتدال ص:682۔ج2۔
[4] ۔ مسند امام احمد۔ص:136۔۔ج1۔
[5] ۔صحیح مسلم الصلوٰۃ المسافرین:691۔
[6] ۔اس کی وضاحت ص:98۔پر آرہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب