سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) بلا عذر نمازیں جمع کرنا

  • 19705
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5331

سوال

(56) بلا عذر نمازیں جمع کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر مسلسل تین تین دن تک مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کی جاتی ہیں(الف)ہلکی ہلکی بوند باندی ہو رہی ہو۔(ب)موسم خراب یا ابرآلود ہو۔(ج)ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو۔ اس سلسلہ میں صحیح مسلم کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بغیر عذر کے نمازیں جمع کی تھیں اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں کہ ایسے حالات میں نمازیں جمع کرنے کا جواز ہے؟ کیا صحیح مسلم میں اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی ناصر ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء

’’اہل ایمان پر نماز اس کے مقررہ اوقات پر فرض کی گئی ہے۔‘‘

اس لیے کسی نماز کے وقت میں بلا عذر جمع کرنا درست نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ہے کہ بلا عذرنمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔[1]

اگرچہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے صراحت کی ہے کہ یہ روایت ابو علی حسین بن قیس الوھبی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے البتہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بلاوجہ نمازوں کو جمع کرتا ہے وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔[2]

سوال میں صحیح مسلم کے حوالہ سے نمازوں کو بلا عذر جمع کرنے کی روایت محض ظن و تخمین پر مبنی ہے، صحیح مسلم میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازوں کو بلا عذر جمع کیاتھا بلکہ صحیح مسلم کی روایات حسب ذیل ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاءکو کسی قسم کے خوف یا سفر کے بغیر جمع کر کے ادا کیا۔[3]

ایک روایت کے مطابق مدینہ طیبہ میں خوف کے بغیر جمع کرنے کا ذکر ہے۔ راوی نے اس کی وجہ دریافت کی تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ امت کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک روایت میں خوف اور بارش کے بغیر جمع کرنے کا ذکر ہے۔یہ تمام روایات مسلم میں حدیث نمبر705۔کے تحت مذکورہیں امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ روایت میں’’علۃ‘‘ یعنی بیماری کے الفاظ کا اضافہ ہے۔[4]

البتہ بلا عذر کے الفاظ کسی روایت میں نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مدینہ طیبہ میں نمازوں کا جمع کرنا بھی کسی سبب کی وجہ سے تھا جس کی وضاحت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایک روایت سے ہوتی ہے عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں ایک دن عصر کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے وعظ پر مشتمل خطبہ دیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے۔لوگوں نے"الصلوٰۃالصلوٰۃ"کہنا شروع کردیا پھر بنو تمیم کا ایک آدمی آیا۔ اس نے بھی بلا دھڑک "الصلوٰۃالصلوٰۃ" کی آواز بلند کی تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:افسوس ہے تو مجھے سنت کی تعلیم دیتا ہے ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ نے مدینہ طیبہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا تھا۔

عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میرے دل میں کھٹکاسا پیدا ہوا۔میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس آیا تو انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مؤقف کی تصدیق کی۔[5]

اس تفصیلی روایت میں واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی ایک معقول عذر کی بناء پر مغرب و عشاء کو جمع کیا تھا وہ یہ کہ آپ کسی اہم موضوع پر تقریر کر رہے تھے۔اگر درمیان میں مغرب کی نماز پڑھی جاتی تو تسلسل کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کچھ باتیں ذہن سے محور ہو جاتیں اور شاید کچھ لوگ بھی نماز کے بعد چلے جاتے اور پوراوعظ سننے سے محروم رہتے،اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز مغرب کو نماز عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھا پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک عمل کا حوالہ دیا کہ آپ نے بھی ایسے حالات میں دو نمازوں کو جمع کیا تھا ۔ سابقہ احادیث میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو نمازوں کو جمع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

1۔سفر2۔خوف3۔بارش 4۔بیماری۔

ان اسباب کے علاوہ میدان  عرفہ اور مزدلفہ میں بھی جمع کرنا مناسک حج سے ہے۔مستحاضہ عورت کو بھی دو نمازیں جمع کرکے ادا کرنے کی اجازت ہے۔جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت مروی ہے، ابن قدامہ لکھتے ہیں۔’’سفر کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں اگر جمع تقدیم میں پہلی نماز کے وقت دوسری نماز ادا کرلی جائے تو سفر یا بارش کا عذر ختم ہونے کے بعد دوسری نماز کا وقت باقی ہو تو ادا شدہ نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘[6]

دراصل ہم اس سلسلہ میں بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ بارش نمازوں کا جمع کرنےکا سبب نہیں ہے خواہ کتنی موسلادھار ہی کیوں نہ ہو اور لوگوں کو آنے جانے میں وقت ہی کا کیوں نہ سامنا کرنا پڑے حالانکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایات میں خوف ، بارش بیماری اور سفر وغیرہ جمع کے اسباب کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔[7]

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ جب امراء وقت بارش کی وجہ سے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے ادا کرتے تو آپ بھی ان کے ہمراہ جمع کر لیتے تھے۔[8]

حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ ،سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ  سے بارش کی بناء پر نمازوں کو جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔[9]

اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کا طریقہ رائج تھا۔جبکہ کچھ لوگ اس قدر تفریط میں مبتلا ہیں کہ معمولی بوند باندی یا تیز ہوا کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کے عادی ہیں۔ جیسا کہ سوال میں جمع کرنے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی کاروباری مصروفیات کی بناء پر نمازوں کو جمع کرنے کا معمول بنا لیتے ہیں بہر حال اس سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کہ سفر کے علاوہ شدیدبارش سخت آندھی ،انتہائی سردی یا ژالہ باری کے وقت نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

جنگی حالات اور ہنگامی اوقات میں بھی نمازوں کو جمع کرنے کا جواز ہے لیکن کاروباری مصروفیات سستی ،ہلکی پھلکی بوند باندی موسم کی خرابی ، ابرآلودگی یا ٹھنڈی ہوا وغیرہ کے وقت نمازوں کو جمع کرنا محل نظر ہے(واللہ اعلم)


[1] ۔ترمذی ،ابواب الصلوٰۃ:188۔

[2] ۔بیہقی ،ص:169۔ج3۔

[3] ۔صحیح مسلم الصلوٰۃالمسافرین:705۔

[4] ۔طحاوی:96۔ج1۔

[5] ۔صحیح مسلم الصلوٰۃالمسافرین:705۔

[6] ۔مغنیٰ،ص:281۔ج2۔

[7]۔ارواء الغلیل ،ص:40۔ج۔

[8] ۔موطا امام مالک قصر الصلوٰۃ،باب الجمع بین الصلوٰتین

[9] ۔بیہقی،ص:168۔ج3۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:82

محدث فتویٰ

تبصرے