السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک امام نماز عشاء کی پہلی دورکعات میں نصف پارہ کے قریب قرآءت کرتا ہے اورمقتدی حضرات کے بڑھاپے یا ان کی بیماری کاخیال نہیں رکھتا، سلام پھیرنے کے بعد اگر مقتدی احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ڈانٹ دیتا ہے اور منبر پر بیٹھ کر مقتدی حضرات کی کردار کشی کرتا ہے کہ میں امام ہوں ، میری مرضی میں جس طرح چاہوں قرآءت کروں ایسے امام کے بارے میں قرآن و حدیث کا کیا فیصلہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام کو چاہیے کہ وہ مقتدیوں کا خیال رکھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ نماز کو لمبا کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے پیچھے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کردیتے کیونکہ اس کے رونے سے ماں کی پریشانی کو آپ جانتے تھے۔[1]
اس سلسلہ میں آپ کی واضح ہدایات ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرائے تو اسے تخفیف کرنی چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں بچے ،بوڑھے،کمزور اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں ہاں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے نماز پڑھے۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے آپ سے شکایت کی کہ میں صبح کی نماز سے دانستہ پیچھے رہتا ہوں کیونکہ ہمارے امام بہت لمبی قرآءت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور آپ نے غضب ناک ہو کر فرمایا : ’’تم میں سے کچھ لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں جو شخص دوسروں کی امامت کرائے اسے چاہیے تخفیف سے کام لے کیونکہ لوگوں میں ناتواں ،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ [3]
تخفیف کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ خشوع اور خضوع کے بغیر ،اطمینان اور اعتدال کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے جلد ازجلد نماز کوسمیٹ لیا جائے بلکہ امام کو چاہیے کہ وہ قرآءت میں تخفیف کرے اور رکوع و سجود کو پورا کرے۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے’’امام کو قیام میں تخفیف کرنی چاہیے البتہ رکوع وسجود کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔’’جس شخص نے رکوع وسجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کی، اس کی نماز کفایت نہیں کرے گی۔‘‘[4]
اس حدیث کے پیش نظر نماز میں مختصر قرآءت اور مختصر اذکار سے طوالت کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی ادائیگی میں مکمل خشوع و خضوع واطمینان واعتدال ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر مگر مکمل پڑھا کرتے تھے۔[5]
صورت مسئولہ میں مقتدی حضرات کے ساتھ امام کا رویہ مستحسن نہیں ہے اسے چاہیے کہ اس پر نظر ثانی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوطویل نماز پڑھانے سے بایں الفاظ روکا۔
’’اے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تو نمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔‘‘[6]
اس احادیث کی روشنی میں امام صاحب کو چاہیے کہ وہ فرض نماز کی جماعت کراتے ہوئے مختصر قرآءت کرے۔جسے مقتدی حضرات برداشت کر سکتے ہوں البتہ نفل نماز میں اپنا شوق پورا کر لیا جائے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔صحیح بخاری،الاذان:705۔
[2] ۔صحیح بخاری،الاذان:703۔
[3] ۔صحیح بخاری،الاذان:702۔
[4] ۔مسند امام احمد۔ص:112،ج4۔
[5] ۔صحیح بخاری،الاذان:702۔
[6] ۔صحیح بخاری،الاذان:705
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب