السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے ایک مکان خریداہے لیکن اس کی لیٹرین قبلہ رخ ہے۔ ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ اسے فی الحال درست کرلیں ،ایسے حالات میں لیٹرین استعمال کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ہماری مالی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جواب دیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قضاءحاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے کے متعلق دو مؤقف ہیں۔
1۔قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے خواہ انسان آبادی میں ہویا صحراء میں بہر صورت منع ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قضاء حاجت کے وقت قبلہ رخ مت بیٹھواور نہ ہی اس کی طرف پشت کرو۔بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب پھر جاؤ۔[1]
واضح رہے کہ مدینہ طیبہ مکہ کے جنوب کی جانب ہے، اس لیے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کر نے کی اجازت ہے ہمارے ہاں قبلہ مغرب کی جانب ہے اس لیے ہمیں شمال یا جنوب کی طرف منہ کرنا ہوگا اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے سے منع فرمایاہے۔اس کا تقاضا ہے کہ آبادی یا صحراءمیں قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہیں کرنی چاہیے چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب شام کے علاقہ میں آئے تو وہاں ہم نے ایسے بیت الخلاء دیکھے جو کعبہ کی جانب بنے ہوئے تھے ہم کعبہ سے انحراف کی کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔(حوالہ مذکور) اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہوتا اپنا رخ دوسری طرف کرنے کی کوشش کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے کہ جس قدر ہم سے ممکن تھا ہم نے کعبہ سے انحراف کی کوشش کی ہے اور جو ہمارے بس میں نہ تھا اس کی ہم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے تھے۔اس سلسلہ میں دوسرا مؤقف یہ ہے کہ قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کی پابندی صحراء میں ہے۔ آبادی یعنی عمارت میں نہیں ہے۔ چنانچہ مروان صفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا انھوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے ۔ میں نے ان سے کہا اے عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ !کیا اس سے منع نہیں کیا گیا؟ انھوں نےفرمایاکیوں نہیں اس عمل سے صرف فضاء میں منع کیا گیا ہے اور جب تمھارے اور قبلہ کے درمیان کوئی اوٹ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[2]
اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی پیش کیا جا تا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی چھت پرچڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضاءحاجت کرتے ہوئے دیکھا۔[3]
اگرچہ ان احادیث کے پیش نظر علماء کی ایک جماعت کایہی موقف ہے کہ قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونا صرف صحراء میں منع ہے۔ آبادی یا عمارتوں میں یہ پابندی ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق ایسا کرنا مطلق طور پر منع ہے یعنی آبادی اور صحراء میں اس امرکی پابندی کی جائے کہ قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ ہونے پائے۔ بیت اللہ کی تقدیس اور تعظیم کا یہی تقاضا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل اُمت کو دئیے ہوئے حکم خاص کے مخالف نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ مالی حالت اس قسم کی ہے کہ لیٹرین کو صحیح کرنے سے رکاوٹ کا باعث ہے اس لیے ایسے حالات میں سید ناابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معمول کو اختیار کیا جاسکتا ہے کہ قضا ء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے احترام کیا جائے اور اس سے پھرنے کی کوشش کی جائےلیکن اگر پوری طرح اس سے انحراف نہ ہوسکےتو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے۔ جب مالی طور پر حالات ساز گار ہو جائیں تو اس قسم کی لیٹرین کا رخ تبدیل کردیا جائے،اگرچہ بعض علماء کے نزدیک عمارتوں میں گنجائش ہے تاہم بہتر ہے کہ عمارتوں میں بھی اس سے اجتناب کیا جائے تاکہ بیت اللہ کی عظمت برقرار رہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔صحیح بخاری ،الصلوٰۃ:394۔
[2] ۔ابو داؤد،الطہارۃ:11۔
[3] ۔صحیح بخاری،الوضو ء:145۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب